تحریر : سید توقیر زیدی امریکہ نے نئے میزائل تجربے پر بر افروختہ ہو کر ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران آگ سے کھیل رہا ہے، اِس حوالے سے امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں تیرہ شخصیات اور بارہ اداروں کو شامل کیا گیا ہے، جن اداروں پر پابندی لگائی گئی ان پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں تعاون اور دہشت گردی سے تعلق کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکہ کی جانب سے عائد نئی پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایران کسی بھی قسم کی دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہو گا اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے جو اقدامات بھی ضروری سمجھے گا، وہ اْٹھائے جائیں گے ہم اپنے ہتھیار کسی کے خلاف نہیں، اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے استعمال کریں گے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اب تک جو اقدامات کئے ہیں اْن سے امریکی شہری بھی پریشان ہیں اِسی لئے اْنہیں دْعائیہ ناشتے میں اْنہیں یہ تشفی دینا پڑی کہ وہ ان کے برہم اقدامات سے پریشان نہ ہوا کریں، کچھ ممالک امریکہ سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں،لیکن اب ہم ان سب کو ٹھیک کر دیں گے۔
امریکہ کے اندر اْن کے خلاف ردِعمل کا ہی نتیجہ ہے کہ اْن کے اپنے مقرر کردہ مشیر نے استعفا دے دیا ہے اور بیرون مْلک امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی یورپی یونین کے رہنما بھی اْن کے اقدامات سے خوش نہیں ہیں۔ فرانسیسی صدر اولاند نے مالٹا کانفرنس کے موقع پر کہا کہ ٹرمپ کی طرف سے یورپی یونین پر دباؤ ناقابلِ قبول ہے۔ یورپ کو کیا کرنا چاہئے انہیں اس حوالے سے ٹرمپ کی ایڈوائس کی کوئی ضرورت نہیں۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ صدر ٹرمپ تو ایران سے کہہ رہے ہیں کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں،لیکن اْن کے اپنے مْلک میں ہالی وڈ سٹار انجلینا جولی کہہ رہی ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر امتیاز آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے، جو الزام ٹرمپ ایران پر لگا رہے ہیں وہ ان پر بھی چسپاں ہوتا ہے۔
ایران پر اس سے پہلے لگنے والی اقتصادی پابندیاں ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھیں کہ اب نئی پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ ایران نے امریکہ سمیت پانچ یورپی ممالک کے ساتھ جو ایٹمی معاہدہ کیا تھا اگرچہ ایران میں بھی انتہا پسندوں نے اسے پسند نہیں کیا تھا اور اْن کا خیال تھا کہ اس معاہدے کے ذریعے امریکہ اور یورپی ممالک نے ایران کو ایٹمی صلاحیت کے میدان میں آگے بڑھنے سے روک دیا ہے، اس سے ایران کو کچھ زیادہ فوائد حاصل نہ ہوں گے،لیکن ایران میں صدر حسن روحانی کے معتدل مزاج ساتھی اسے ایران کی سفارتی مہارت اور خصوصاً وزیر خارجہ جواد ظریف کی ایک کامیاب ڈپلومیٹ کی صلاحیتوں کا ثبوت قرار دیتے تھے، جس کے نتیجے میں ایران پر پابندیاں ختم ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ابھی حال ہی میں بوئنگ اور ائر بس کمپنیوں نے ایران کو مسافر بردار طیارے سپلائی کرنے کے معاہدوں کو بھی حتمی شکل دی ہے،اربوں ڈالر کے یہ معاہدے ہوا بازی کی تاریخ کے بڑے اہم معاہدے ہیں۔
Ballistic Missile Testing
دونوں کمپنیوں کے پاس اب اتنے طیاّروں کے آرڈر جمع ہو گئے ہیں کہ آئندہ کئی سال تک ان کی تکمیل ہوتی رہے گی، امید تھی کہ جو پابندیاں باقی رہ گئی ہیں وہ بھی جلد ہی اْٹھ جائیں گی،لیکن صدر ٹرمپ نے نئی پابندیوں کے سلسلے میں کچھ زیادہ ہی جلد بازی دکھا دی ہے اور بظاہر اِس اقدام کا مقصد اسرائیل کو خوش کرنا ہو سکتا ہے، جو اوباما کے دور میں ایران نیو کلیئر ڈیل سے خوش نہیں تھا، اور اسے امید تھی کہ ٹرمپ صدر منتخب ہو کر ایران کے ساتھ یہ معاہدہ ختم کر دیں گے، معاہدہ تو ابھی ختم نہیں کیا گیا البتہ میزائل کے نئے تجربات کو بہانہ بنا کر ایران پر نئی پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔پابندیاں عائد کرتے وقت ایران پر بھی وہی الزام لگایا گیا ہے جو عراق پر لگایا گیا تھا کہ اْس کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اسی بنیاد پر امریکہ اور برطانیہ نے مل کر عراق پر حملہ کر کے عراق کی اینٹ سے اینٹ تو بجا دی، صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ بھی کر دیا، لیکن وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کہیں نہ ملے، ہتھیار کہیں ہوتے تو ملتے۔اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ عراق کے پاس ایسے کوئی ہتھیار نہیں تھے۔
ان کے بارے میں مسلسل پروپیگنڈہ کر کے پہلے عراق کے خلاف فضا ہموار کی گئی اور پھر امریکہ اور نیٹو نے مل کر عراق پر حملہ کر دیا، برطانیہ کے اس وقت کے وزیراعظم ٹونی بلیئر نے بھی بش کے ”پوڈل” کا کردار ادا کرتے ہوئے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا دی تاہم بعد میں چلکوٹ کمیشن نے کئی سال کی عرق ریزی کے بعد یہ رپورٹ دی کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کوئی ہتھیار نہیں تھے،لیکن یہ رپورٹ اْس وقت آئی جب عراق کو تباہ و برباد کیا جا چکا تھا اور اس کا کوئی ازالہ بھی ممکن نہ تھا۔ ٹونی بلیئر کی ایک کھسیانی سی معذرت اس تباہی کا ازالہ نہیں کر سکتی تھی، جس میں لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اْتار دیئے گئے اور عراق کو کھنڈر بنا دیا گیا۔ سابق صدر اوباما ایران کے ساتھ نیو کلیئر معاہدے کو اپنا بہت بڑا کارنامہ قرار دیتے تھے اور انہوں نے صدر ٹرمپ کو باور کرایا تھا کہ یہ معاہدہ امریکہ اور یورپ کے مفاد میں ہے اِس لئے اسے منسوخ کرنے کا تصور نہ کریں اور معاہدے کے مخالفین کے دباؤ میں نہ آئیں،لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے۔
امریکی صدر کے غصے کی زد میں فی الحال ایٹمی معاہدہ تو نہیں آیا، لیکن انہوں نے ایران کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار باانداز دِگر کر دیا ہے۔ عین ممکن ہے کسی اگلے مرحلے پر وہ معاہدے کی منسوخی کا اقدام بھی کر گزریں،لیکن انہیں اس پہلو سے بھی سوچنا ہو گا کہ اس طرح امریکہ کا ایٹمی عدم پھیلاؤ کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل واحد مْلک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور اس نے امریکہ اور دوسرے ممالک کی امداد کے ساتھ اِس سلسلے میں کافی پیشرفت کر لی ہے اور اپنی اس فوجی قوت کے بل بوتے پر نہ صرف فلسطین میں توسیع پسندی کے راستے پر گامزن ہے،بلکہ شام اور اردن کے جو علاقے اْس نے جنگوں میں ہتھیا لئے تھے اْن پر بھی غاصبانہ قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔
عراق اور شام کی فوجی قوتوں کی تباہی و بربادی کے بعد اس علاقے میں اب ایران ہی ایسا مْلک باقی رہ گیا ہے،جو اسرائیل کی نگاہوں میں کھٹکتا ہے،کیونکہ اس کے رہنما آزاد خارجہ پالیسی پر گامزن ہیں اور اسرائیل کا دباؤ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں، بلکہ اسرائیل کی دکھتی رگ ”ہولو کاسٹ” کو بھی چھیڑتے رہتے ہیں،اِس لئے امریکی صدر نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر ایران پر نئی پابندیاں لگا دی ہیں، جو بہرحال دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہے اور اس مسئلے پر بدلے ہوئے حالات میں یورپی ممالک کی تائید بھی امریکہ کو حاصل نہیں ہو گی،اِس لئے بہتر یہی ہے کہ صدر ٹرمپ اس سارے معاملے پر ٹھنڈے دِل سے غور کریں اور غصہ بھرے اقدامات نہ اٹھائیں۔