ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران میں قدامت پسند مذہبی پیشوا ابراہیم رئیسی نے جمعہ کو منعقدہ صدارتی انتخابات میں 61.95 فی صد ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے۔ان انتخابات میں اسلامی جمہوریہ کی تاریخ میں سب سے کم ووٹ ڈالے گئے ہیں۔
ایران کی وزارت داخلہ نے ہفتے کے روز صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا اور بتایا کہ ووٹ ڈالنے کی شرح 48.8 فی صد رہی ہے اور یہ ملک کی تاریخ میں صدارتی انتخابات میں سب سے کم ٹرن آؤٹ ہے۔
ابراہیم رئیسی نے قریباً ایک کروڑ80 لاکھ ووٹ حاصل کیے ہیں۔وہ اگست کے اوائل میں موجودہ صدر حسن روحانی کی جگہ منصب سنبھالیں گے۔اس وقت وہ ایرانی عدلیہ کے سربراہ ہیں۔ صدر کا حلف لینے کے بعد وہ یہ عہدہ چھوڑ دیں گے۔
ابراہیم رئیسی 1960ء میں شمال مشرقی شہرمشہد میں ایک مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ان کی انتخابی مہم کی ویب سائٹ کے مطابق انھوں نے تہران کی جامعہ مطاہری سے قانون اور فقہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔
رئیسی 1980ء کی دہائی کے اوائل سے ایران کی عدلیہ میں ایک اہم شخصیت ہیں۔1981ء میں 20 سال کی عمر میں انھیں تہران کے قریب واقع شہر کاراج کا پراسیکیوٹرمقرر کیا گیا تھا۔ دو سال بعدانھیں کاراج سے 180 میل دور واقع شہر حمدان میں پراسیکیوٹرمقرر کیا گیا تھا-وہ کاراج کے پراسیکیوٹر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے تھے۔
انھوں نے کئی ماہ تک بیک وقت دونوں شہروں کے پراسیکیوٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔پھر انھیں صوبہ حمدان کے پراسیکیوٹر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی تھی۔1985ء میں رئیسی کا دارالحکومت تہران میں تبادلہ کردیا گیا اورانھوں نے ڈپٹی پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
ابراہیم رئیسی نے جن دوسرے اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں،ان میں 2004ء سے 2014ء تک ڈپٹی چیف جسٹس اور 2014ء سے 2016ء تک اٹارنی جنرل کا عہدہ شامل ہے۔
ابراہیم رئیسی کا نام 1988ء میں ایران میں سیاسی قیدیوں کو بڑی تعداد میں تختہ دار پر لٹکانے کے واقعات سے جڑا ہوا ہے۔تب مبینہ طور پر سپریم لیڈرروح اللہ خمینی نے ایرانی عدلیہ اور انٹیلی جنس حکام کے ایک گروپ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔یہ’’موت کمیٹی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی تھی اورابراہیم رئیسی اس کے ایک سرکردہ رکن تھے۔اس کمیٹی کی نگرانی میں ہزاروں سیاسی قیدیوں کو بڑے پیمانے پر پھانسی دی گئی تھی۔
پھانسی پانے والوں میں زیادہ تربائیں بازو کے کارکنان اور منحرف گروپ مجاہدین خلق (ایم ای کے) کے ارکان تھے۔انسانی حقوق کے گروپوں کا اندازہ ہے کہ تب ایران میں قریباً 5000 افراد کو پھانسی دی گئی تھی جبکہ مجاہدین خلق یہ تعداد 30,000 بتاتی ہے مگر اس نے آج تک اپنے دعوے کی تائید میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے۔ایران نے کبھی ان پھانسیوں کا مکمل اعتراف نہیں کیا اور خود رئیسی نے بھی اپنے خلاف اس ضمن میں الزامات پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
2019ء میں امریکا نے ابراہیم رئیسی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں پابندی عاید کردی تھی۔انھیں 1980ء کی دہائی میں مذکورہ پھانسیوں میں ملوث ہونے کا موردالزام ٹھہرایا گیا تھا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا تھاکہ رئیسی کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات ہونی چاہییں۔
ایمنسٹی کے سیکرٹری جنرل ایجنس کالامارڈ نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ابراہیم رئیسی اپنے خلاف قتل،لوگوں کو لاپتا کرنے اور انسانیت مخالف جرائم کی تحقیقات کے بجائے صدارت تک پہنچ گئے ہیں۔یہ اس امر کی بھیانک یاددہانی ہے کہ ایران میں اعلیٰ عہدے داروں کا سزا سے بچ نکلنے کا دور دورہ ہے۔‘‘
ابراہیم رئیسی گذشتہ تین عشروں سے ایران کی عدلیہ میں ایک اہم شخصیت رہے ہیں لیکن وہ ملک کے سیاسی میدان میں کافی نئے کھلاڑی ہیں۔
2016ء میں سپریم لیڈرعلی خامنہ ای نے ابراہیم رئیسی کوآستانِ قدس رضوی کا محافظ مقرر کیا تھا۔ یہ اربوں ڈالر کی مالیت کے مالک کاروباری اداروں اور اوقاف کا انتظام کرتا ہے اور یہ خامنہ ای اور رئیسی دونوں کے آبائی شہر مشہد میں امام رضا کے مزارکے امور کی نگرانی کرتا ہے۔
ابراہیم رئیسی نے 2017ء میں حسن روحانی کے مقابلے میں صدر کا انتخاب لڑا تھالیکن وہ ان سے ہار گئے تھے۔ اس کے باوجود ایران کی حکمران اسٹیبلشمنٹ میں ان کےعروج کا سلسلہ جاری رہا۔ 2019 میں خامنہ ای نے انھیں عدلیہ کا سربراہ مقرر کیا اور یہ عہدہ ایران میں سب سے اہم عہدوں میں سے ایک ہے۔
ان کے دور میں عدلیہ نے نومبر2019 میں ملک گیر مظاہروں کے دوران اور اس کے بعد سینکڑوں مردوخواتین اور بچوں کوغیر قانونی طور پر قتل کرنے اور ہزاروں مظاہرین کو بڑے پیمانے پر گرفتاراور کم از کم سینکڑوں افراد کو لاپتا کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے ذمے دار سرکاری عہدیداروں اور سیکورٹی فورسز کو مکمل سزا دی ہے۔
عدلیہ نے ان کی نگرانی میں ستمبر 2020 میں پہلوان نوید افکاری کو پھانسی دے دی اور تین ماہ بعد صحافی روح اللہ زم کو دو ایسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جن کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔
ایران کی خارجہ پالیسی ایران کی خارجہ پالیسی صدر نہیں بلکہ سپریم لیڈرطے کرتے ہیں،اس لیے رئیسی کے صدر بننے سے اس میں کسی جوہری تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔اس لیے اب وہ بیرون ملک خامنہ ای کے وژن پر عمل درآمد کو تیارہوں گے۔ ایرانی امور کے ماہر بہنام بن طالبلو کے بہ قول ابراہیم رئیسی خود کوئی وژنری لیڈرہیں اور نہ ہی ایرانی صدر کو پہلے سے طے شدہ راستے سے انحراف کااختیار حاصل ہے۔
ایران انٹرنیشنل ٹی وی کے مشرق اوسط کے سینیر تجزیہ کار جیسن بروڈسکی نے العربیہ انگلش کو بتایا کہ اسلامی جمہوریہ کی بنیادی پالیسیاں بڑی حد تک یکساں رہیں گی۔
اس وقت امریکا اور ایران 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کی بحالی کے لیے اپریل سے ویانا میں بالواسطہ بات چیت کررہے ہیں۔امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں یک طرفہ طورپر اس سمجھوتے سے دست بردار ہوگئے تھے۔
بروڈسکی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ’’اگرچہ رئیسی کے اس سمجھوتے کی بحالی میں رکاوٹ ڈالنے کا امکان نہیں لیکن انسانی حقوق کے ریکارڈ کے پیش نظران کے صدر بننے سے ایران کے لیے پابندیاں ختم ہونے کے فوائد کم ہو سکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’ابراہیم رئیسی داخلی طور پر مزاحمتی معیشت کے بارے میں سپریم لیڈر کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے بجائے مقامی پیداوار بڑھانے پر زیادہ توجہ دیں گے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رئیسی کا نام اکثرخامنہ ای کے ممکنہ جانشین کے طور پرلیا جاتا ہے اورانتخابات میں کامیابی سے ان کے ایران کے آیندہ سپریم لیڈر بننے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
بروڈسکی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ابھی یقینی طور پر یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ رئیسی سپریم لیڈر بنیں گے یا نہیں۔ لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس منصب کے ایک سرکردہ دعوےدار ضرور ہیں۔اگرخامنہ ای ان کے دورِصدارت میں وفات پا جاتے ہیں تو رئیسی انتقال اقتدار کے عمل میں اہم کردار ادا کریں گے اوراس میں ان کی جانب سے عبوری قیادت کونسل میں خدمات انجام دینے کا امکان بھی شامل ہے۔‘‘