ایران جوہری معاہدہ سے متعلق فیصلہ چند روز میں، مگر گیند تہران کے کورٹ میں ہے: فرانس

French Foreign Minister

French Foreign Minister

فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) فرانس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی طاقتوں کےایران کے ساتھ 2015 میں طے شدہ جوہری معاہدے کو بچانے کا فیصلہ چند دن کی دوری پر ہے لیکن اب یہ تہران پر منحصر ہے کہ وہ سیاسی انتخاب کرے۔

ایران اور امریکا کے درمیان 10 دن کے وقفے کے بعد گذشتہ ہفتے تخریب زدہ معاہدے کی بحالی کے بارے میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بالواسطہ بات چیت دوبارہ شروع ہوئی تھی اور معاہدے کے دیگر فریق برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس کے حکام ایران اور امریکا کے درمیان اختلافات کی خلیج پاٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔

مغربی سفارت کاروں نے پہلے اشارہ دیا تھا کہ انھیں ابھی تک مذاکرات کی کامیابی کی امید ہے لیکن پیچیدہ مسائل ہنوزحل طلب ہیں۔ ایران نے مغربی طاقتوں کی جانب سے عاید کردہ کسی بھی ڈیڈ لائن کو مسترد کردیا ہے۔

فرانسیسی وزیرخارجہ ژاں وائی ویس لودریان نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ یہ ہفتوں کی بات نہیں بلکہ یہ چند دنوں کا معاملہ ہے۔ان کے بہ قول مغربی طاقتوں، روس اور چین میں معاہدے کے خاکے پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’ایرانیوں کو سیاسی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔یا تو وہ آنے والے دنوں میں ایک سنگین بحران کو جنم دے سکتے ہیں یا وہ اس معاہدے کو قبول کریں جو تمام فریقوں کے مفادات کا احترام کرتا ہے‘‘۔

سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران جتنا طویل عرصہ اس معاہدے سے باہر رہے گا، اسے اتنی ہی زیادہ جوہری مہارت حاصل ہوگی،اگر اس نے اس کا انتخاب کیا تووہ جوہری بم بنانے کے عمل میں تیزی لاسکتا ہے اور اس طرح معاہدے کا اصل مقصد ختم ہوکررہ جائے گا۔تاہم ایران اس بات کی تردید کرتاہے کہ اس نے کبھی جوہری ہتھیارتیار کرنے کی کوشش کی ہے۔

مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اب ویانا مذاکرات کے آخری مرحلے میں ہیں اور ان کاخیال ہے کہ ایک معاہدہ پہنچ میں ہے۔

لودریان کا کہنا تھا کہ ’’ہم سچائی کے لمحے کے قریب آ رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایران اپنے (جوہری) عدم پھیلاؤ کے وعدوں کااحترام کرے اورامریکا کی جانب سے پابندیاں ختم کرنے کے بدلے میں کچھ اقدامات کرے۔

ایران نے گذشتہ پیر کے روز کہا تھا کہ جب تک اس کے قومی مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے،تب تک وہ ایک نیا معاہدہ کرنے کی ’’جلدی‘‘ میں ہے۔البتہ معاہدے کی بحالی کے لیے “مغرب کے سیاسی فیصلوں” کی ضرورت ہے۔

اب تک ویانامذاکرات میں باعث نزاع امور میں ایران کا یہ مطالبہ سرفہرست ہے کہ وہ امریکا سے مستقبل میں مزید پابندیاں عاید نہ کرنے کی ضمانت طلب کررہا ہے اور یہ بھی تقاضا کررہا ہے کہ اس کے خلاف تعزیری اقدامات بھی نہیں کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ 2015ء میں طے شدہ سمجھوتے نے ایران کو یورینیم کی اعلیٰ سطح پرافزودگی سے روک دیا تھا تاکہ وہ جوہری ہتھیاروں کے لیے درکار مواد تیارنہ کرسکے۔اس کے بدلے میں اس پرعاید بین الاقوامی پابندیاں ختم کردی گئی تھیں۔

تاہم 2018ء میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سمجھوتے سے یک طرفہ دستبرداری کے بعدایران نے بھی بتدریج دوبارہ خلاف ورزیاں شروع کردی تھیں اوراس نے افزودہ یورینیم کے ذخائراکٹھے کر لیے ہیںاس نے یورینیم کو ہتھیاروں کے گریڈ کے قریب مصفیٰ بنایا ہے۔نیز اس نے یورینیم کی افزودگی کا عمل تیز کرنے کے لیے جدید سنٹری فیوجزمشینیں نصب کی ہیں۔