ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کے بعد ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدہ طے پا گیا ہے یہ معاہدہ سوئس شہر جنیوا میں پانچ روزہ بات چیت کے نتیجے میں طے پایا ہے یورپی یونین اور بہت سے سربراہان مملکت جن میں مریکی صدر براک اوباما، ایران کے صدر حسن روحانی، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اور کیتھرین ایشن سمیت بہت سے عہدے داروں نے اس معاہدے پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور اکثریت کا اب خیال کہ اس سے دنیا مزید محفوظ ہو جائے گی یہ ایک دہائی میں عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان طے پانے والا سب سے اہم سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔
معاہدے کی بدولت کئی دہائیوں میں پہلی مرتبہ ایران کا جوہری پروگرام روک دیا گیا ہے ۔معاہدہ یہ تھا کہ ایران یورینیم کی پانچ فیصد سے زائد افزودگی روک دے گا اور درمیانے درجے تک افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو ناکارہ بنائے گا۔آراک کے مقام پر بھاری پانی کے جوہری منصوبے پر مزید کام نہیں کیا جائے گا۔جوہری ہتھیاروں کے عالمی ادارے کو نتنانز اور فردو میں واقع جوہری تنصیبات تک روزانہ کی بنیاد پر رسائی دی جائے گی۔ان اقدامات کے بدلے میں چھ ماہ تک جوہری سرگرمیوں کی وجہ سے ایران پر کوئی نئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔قیمتی دھاتوں اور فضائی کمپنیوں کے سلسلے میں پہلے سے عائد کچھ پابندیاں معطل کر دی جائیں گی۔ایران کو تیل کی فروخت کی موجودہ حد برقرار رہے گی جس کی بدولت ایران کو چار ارب بیس کروڑ ڈالر کا زرِمبادلہ حاصل ہو سکے گا اس معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو مزید ترقی نہیں دے سکے گا اور کچھ پہلوؤں سے اس پروگرام کو سکیڑا جائے گا۔ ایران نے اپنے افزودہ یورینیم کے ذخیرے میں کمی کرنے اور عالمی معائنہ کاروں کو اپنی تنصیبات تک رسائی دینے پر اتفاق کیا ہے اور اس کے بدلے میں اس پر عائد پابندیوں میں بتدریج کمی کی جائے گی ایران اس بات پر مضر ہے کہ یورینیئم کی افزودگی ان کے ملک کا حق ہے اور وہ یہ عمل جاری رکھے گا۔
دوسری طرف واشنگٹن چاہتا ہے کہ معاہدے کے تحت ایران نے جن رعایتوں کا وعدہ کیا ہے اس سے ایران کے جوہری پروگرام کی شفافیت بڑھے گی اور اس کی زیادہ قریب سے نگرانی ہوسکے گی۔ان کے بقول معاہدے کا جو مرکزی نکتہ ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ ایران کو جوہری بم بنانے سے روکا جائے گا۔ اس معاہدے کے بعد ایران پر کسی حد تک پابندیاں نرم کی جائیں گی مگر ایران کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ معاہدے کی پاسداری کررہا ہے ورنہ پابندیاں پھر سے لاگو کردی جائیں گی۔
Iran Nuclear Agreement
ایران کو اپنے جوہری پروگرام کی وجہ سے امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے سخت پابندیوں کا سامنا ہے اور ایران پابندیوں میں نرمی کی وجہ سے تیل اور پیٹروکیمیکلز کی فروخت اور قیمتی دھاتوں کی تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کر سکے گا اسکے ساتھ ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ایران کو سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی تجارت سے ڈیڑھ ارب ڈالر حاصل ہو سکتے ہیں جبکہ تیل اور پیٹروکیمیکلز کی فروخت سے حاصل ہونے والے چار ارب بیس کروڑ ڈالر ایران کو صرف اسی صورت میں اقساط میں دیے جائیں گے اگر وہ معاہدے کی پاسداری کرتا ہے اس معاہدہ سے قبل امریکی صدر براک اوباما نے امریکی قانون سازوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ایران کے خلاف مزید پابندیوں کی تجویز نہ دیں اور امریکہ عالمی قوتوں کو موقع فراہم کرے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے سلسلے میں معاہدہ مکمل کر سکیں اس کے علاوہ امریکہ کو یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر تہران کے ساتھ کوئی معاہدہ طے نہیں ہوا تو ایران یورینیم کی افزودگی جاری رکھے گا۔ ایران کے جوہری پروگرام کے سلسلے میں چھ عالمی طاقتوں نے ایک ممالک کے گروپ کے سفارتکار جنیوا میں ایران کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کئے۔ ایران کے وزیر خارجہ کے خیال میں اس دفعہ مذاکرات میں اختلافِ رائے ختم ہو سکتا ہے جاوید ظریف کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہم ایرانیوں کے لیے جوہری توانائی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم کسی کلب کا حصہ بن جائیں یا دوسروں کو دھمکائیں۔
ہمارے لیے جوہری توانائی مستقبل کے بارے میں ہمارے اپنے فیصلے کی اہلیت ہے نہ کہ کوئی دوسرا ہماری جانب سے ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ امریکی قانون سازوں کو اس بات پربھی تشویش تھی کہ وائٹ ہاؤس ایران کے جوہری پروگرام پر بہت تیزی سے معاہدہ طے کرنا چاہتا ہے حالانکہ اسے تہران کے ساتھ سخت موقف اختیار کرنا چاہیے اور انکا خیال تھا کہ اگر ابتدائی معاہدہ نہیں ہوتا ہے تو ایران اپنے یورینیئم کے ذخائر میں اضافہ کرے گا اور نئے سنٹری فیوج کی تنصیب کے ساتھ ارک شہر میں پلیوٹونیئم ری ایکٹر کو فروغ دے گا مگراب صدر اوباما کی طرف سے پابندیوں میں نرمی کے نتیجے میں ایران کو 40 ارب ڈالر کی رقم ملے گی۔واضح رہے کہ 2006 سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران کے خلاف مختلف قسم کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جو ایران کے جوہری پروگرام سے منسلک ہیں۔اقوام متحدہ کے علاوہ امریکہ اور یورپی یونین کی علیحدہ پابندیوں کی وجہ سے ایران میں توانائی اور بینکنگ کا شعبہ متاثر ہے اور تیل پر مبنی اس کی معیشت دباؤ کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے علاوہ جرمنی اور تہران کے اعلیٰ سفارتکاروں کے درمیان ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر سوئٹزرلینڈ میں مذاکرات کا نتیجہ خیزی پر ختم ہونا ایک خوش آئند اقدام ہے ۔لیکن عالمی طاقتوں کے دہرے معیار نے ایک اسلامی ملک کے گرد گھیرا تنگ کر لیا ہوا تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہ بنا سکے لیکن اسرائیل سب کے سامنے ہے جس کے ایٹمی ہتھیاروں کی بھر مار بارے سب نے آنکھیں بندکی ہوئی ہیں۔
ایران کے ساتھ اس لئے معاہدہ درست ہے کہ کافی عرصہ سے اس کی معشیت پر دباو تھا اور بغیر کسی خون خرابے کے معاملات طے پا گئے ہیں کیو نکہ یہی طاقتیں ایران کے ایٹمی پروگرام پر حملہ کرنے کیلئے بھی تیار بیٹھی تھی۔ تقریباً 10 برسوں سے جاری تنازع اب اپنے آخری عمل میں داخل ہوچکا ہے مذاکرات میں پیش رفت کو دیکھتے ہوئے اس امید کے ساتھ کہ ایران جوہری پروگرام پر ایک معاہدے پر اتفاق ہوا ہے۔ اگرچہ مذاکراتی عمل میں پیش رفت نہ ہوئی تو قابلِ ذکر اختلافات بدستور موجود رہیںگے۔
اس ضمن میں ایران کے جائز تحفظات کا بھی عالمی طاقتوں کو خیال رکھنا ہوگاکیو نکہ ان اختلافات میں ایک اہم جز یہ بھی ہے کہ تہران کو کس حد تک یورینیم کی افزدگی کی اجازت ہوگی اور یہ کہ تعزیرات میں کتنی نرمی کی جائے گی۔اس ضمن میں ایران یورینیم کی افزدگی کا حق رکھتا ہے کیو نکہ وہ اس بات کی تردید کرتا آیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کا خواہشمند ہے ۔اس نے جوہری پروگرام میں شامل بعض سرگرمیوں کو معطل کرنے کی پیشکش کی ہے اور مغربی تعزیرات میں نرمی کے بدلے اس پروگرام کے زیادہ مربوط انداز میں معائنے کی اجازت پر اتفاق کیا ہے۔