ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ان کا ملک 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کے فریقوں سے محض لفاظی نہیں بلکہ عملی اقدامات چاہتا ہے۔
خامنہ ای نے بدھ کو ایک نشری تقریر میں کہا ہے:’’ہم نے بہت سے اچھے الفاظ اور وعدے سنے ہیں لیکن عملی طور پر ان وعدوں کو توڑا گیا ہے اوران کے برعکس اقدامات کیے گئے ہیں۔خالی خولی الفاظ اور وعدے اچھے نہیں ہوتے۔اس مرتبہ ہم دوسرے فریق کی طرف سےاقدامات چاہتے ہیں اور ہم خود بھی اقدامات کریں گے۔‘‘
امریکا کے نئے صدر جوبائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے یہ کہہ چکے ہیں کہ ایران جوہری سمجھوتے کی پاسداری کرے تو امریکا بھی اس میں دوبارہ شامل ہونے کو تیار ہے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اگر امریکا اس سمجھوتے میں دوبارہ شامل ہوتا ہے تو اس کے بعد ہی وہ کوئی اقدام کرے گا۔اس کے علاوہ وہ امریکا سے تمام پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔
ایران اور امریکا کے درمیان گذشتہ کئی عشروں سے کشیدگی چلی آرہی ہے۔ان کے درمیان مئی 2018ء میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ دستبرداری کے فیصلے کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہواتھا۔ امریکی صدر نے بعد میں زیادہ سے زیادہ دباؤ برقرار رکھنے کی مہم کے تحت ایران کے خلاف دوبارہ سخت پابندیاں عاید کردی تھیں۔
سابق صدر کے اس اقدام کے ایک سال بعد ایران نے 2015ء میں چھے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتے کی شرائط کی بتدریج خلاف ورزی شروع کردی تھی۔ اب اس کا کہنا ہے کہ وہ یورینیم کو 20 فی صد تک افزودہ کرنا چاہتا ہے جبکہ اس وقت وہ 4۰5 فی صد تک یورینیم کوافزودہ کررہا ہے۔
اس جوہری سمجھوتے کے تحت ایران یورینیم کو صرف 3۰67 فی صد تک افزودہ کرسکتا ہے۔یہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے درکار90 فی صد افزودہ یورینیم سے کہیں کم سطح ہے۔ایران نے دسمبر2020ء میں قانون سازی کے ذریعے یورینیم کو افزودہ کرنے کے لیے اضافی اور جدیدسینٹری فیوجز مشینیں نصب کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ویانا میں قائم جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) نے حال ہی میں اپنی نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’ایران نے جوہری سمجھوتے کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اوراس نے اپنے ایک زیرزمین پلانٹ میں جدید سینٹری فیوجز مشینوں پر زیادہ بڑے پیمانے پر یورینیم کی افزودگی شروع کررکھی ہے۔‘‘