ایرانی جوہری ڈیل: ویانا میٹنگ نہایت اہم ہے، ایران

Iran

Iran

ایران (جیوڈیسک) ویانا میں ہونے والی میٹنگ بظاہر معاہدے کے تحت قائم ہونے والے کمیشن کی سہ ماہی میٹنگ ہے۔ اس میں ایران کے علاوہ روس، برطانیہ، چین، جرمنی، فرانس اور یورپی یونین کے نمائندے شریک ہوں گے۔

ایران نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدے کو محفوظ رکھنے کا آخری موقع جمعہ اٹھائیس جون کو ویانا میں امریکا کے علاوہ سمجھوتے پر دستخط کرنے والے بقیہ ممالک کی میٹنگ سے وابستہ ہے۔ آسٹریائی دارالحکومت ویانا میں ڈیل کے تحت قائم کمیشن کی یہ معمول کی سہ ماہی میٹنگ ہے۔

ایران نے اس میٹنگ کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ تہران امریکی پابندیوں کے تناظر میں کسی بھی مصنوعی حل کو قبول نہیں کرے گا۔ تہران حکومت کا واضح طور پر کہنا ہے کہ وہ جوہری ڈیل کو آخری وقت تک محفوظ رکھنے کی کوشش کی پالیسی پر عمل جاری رکھے گی۔

ایران نے ڈیل پر دستخط کرنے والے ممالک کو مطلع کر رکھا ہے کہ امریکی اقتصادی پابندیوں کا سدباب نہ کیا گیا تو ڈیل میں طے شدہ اجازت کی روشنی میں یورنیم کی افزودگی شروع کر دی جائے گی۔ اس تناظر میں ایران ایک مراسلہ بھی امریکا کے علاوہ دیگر دستخط۔ کنندگان کو ارسال کر چکا ہے۔ اس مراسلے میں تہران حکومت نے مناسب اقدامات نے کیے جانے کی صورت میں ڈیل کے تحت روکی گئی یورینیم کی افزودگی سات جولائی سے شروع کرنے کا بتایا گیا ہے۔

ویانا میٹنگ میں ہونے والی اس اعلیٰ سطحی ملاقات میں روس، برطانیہ، چین، جرمنی، فرانس اور یورپی یونین کے نمائندے شریک ہو کر ایران کے امریکی اقتصادی پابندیوں کے تناظر میں پیدا ہونے خدشات و تحفظات پر گفتگو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ حالیہ ایام میں ایران نے اپنی یورینیم افزودہ کرنے کی رفتار میں ایک چوتھائی اضافہ کر دیا ہے۔ افزودگی کا یہ عمل معمول کے معیار سے کم رکھا گیا ہے۔ یورپی ممالک ایران کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ امریکی پابندیوں کا متبادل تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن ایران کو اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔

ایرانی ٹیلی وژن کے مطابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے یورپی دستخط کنندگان کو ایک اور خط میں جوہری ڈیل کی کمٹ منٹس پورے کرنے کی یاد دہانی کرائی ہے۔ ظریف کے مطابق ایران کا اگلا اقدام یورپی حکومتوں کے فیصلے کے تناظر میں ہو گا۔ ایران کے ساتھ برطانیہ، فرانس اور جرمنی ایک پیچیدہ بارٹر نظام پر مبنی تجارت کو حتمی شکل دینے والے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ اس کی تفصیلات کب جاری کی جائیں گی۔