ایران کا اپنے ایٹمی پروگرام پر 6 عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدہ مسئلے کے پرامن حل کی طرف بڑی پیشرفت ہے۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی جزئیات طے کی جا رہی ہیں۔ ہمارا پہلے ہی موقف تھا کہ امریکی پابندیوں کا اطلاق اس منصوبے پر نہیں ہوتا۔ یہ بات سرکاری ٹی وی سے انٹرویو میں اعزاز احمد چودھری نے کہا اگر ایران کے ایٹمی پروگرام پر کسی قسم کا کوئی ٹکراو پیدا ہوتا ہے تو اسکے ہمارے خطے پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے کیونکہ ہمارا خطہ پہلے ہی بہت سے مسائل کا شکار ہے۔
پاکستان کا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے کہ ایران کے ایٹمی مسئلے کا پرامن حل تلاش کیا جائے۔ حالیہ معاہدہ معاملے کے پرامن حل کی طرف ایک قدم اور بہت بڑی مثبت پیشرفت ہے۔ پاکستان اور ایران برادر ملک ہیں ہم اپنے برادر ملک کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ہم پہلے بھی یہ سمجھتے تھے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کا اطلاق گیس پائپ لائن منصوبے پر نہیں ہوتا، بہرحال امریکہ کا اپنا بھی سیاسی وقانونی نقطہ نظر ہے۔ موجودہ حکومت نے دیگر منصوبوں کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبوں کو بھی میز پر رکھا ہوا ہے اور اس منصوبے کی جزئیات طے کرنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ ایرانی حکومت کے معاہدے کے بعد عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمت کم ہوئی ہے۔ ایران میں اس معاہدے کا پرجوش خیر مقدم کیا گیا ہے لیکن اسرائیل کے بعد متعدد عرب ملکوں کی طرف سے اس معاہدے کو ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کا لائسنس دینے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایران اور 15 طاقتوں کے درمیان معاہدہ پر نہایت محتاط تبصرہ کیا ہے۔ ایک بیان میں سعودی وزارت خارجہ نے قرار دیا ہے کہ اگر نیت ٹھیک ہو تو اس معاہدہ کو کامیابی سے تکمیل کے مراحل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ تاہم سرکاری سطح پر کسی زبردست ردعمل کا مظاہرہ نہ ہونے کے باوجود یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں مشرق وسطیٰ کے متعدد عرب ممالک اس معاہدہ سے خوش نہیں ہیں۔ اس لئے ان ملکوں کے ماہرین اور مبصرین بدستور یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ معاہدہ ایک بہت بڑی غلطی ثابت ہو گا اور اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں اسلحہ کی ایک خوفناک دوڑ شروع ہو جائے گی۔
امریکہ نے اپنے طور پر اپنے حلیف ملکوں کو اس حوالے سے اطمینان دلانے کی کوشش کی ہے۔ صدر باراک اوباما نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو سے فون پر بات کی ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ اسرائیل کی سلامتی امریکہ کے لئے بے حد اہمیت رکھتی ہے۔ اس لئے امریکہ کسی طور سے کوئی ایسی صورتحال برداشت نہیں کرے گا جس سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ہو۔ اسی طرح امریکی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں کی حکومتوں کو بھی اطمینان دلانے کی کوشش کی ہے۔
Israel
مختلف رپورٹ کے مطابق کہ عرب ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے بعد امریکہ کی طرف سے صرف اسرائیل کی حفاظت کی بات کی گئی ہے اور مشرق وسطیٰ میں حلیفوں کے مفادات کی بات کرتے ہوئے امریکہ کے پیش نظر صرف اسرائیل ہی ہوتا ہے۔ حالانکہ ایران کی وسعت پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ عرب مفادات کو ہے۔ اس لئے ایران اور مغربی ممالک کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں عرب ملکوں کی سلامتی سب سے زیادہ دائوپر لگی ہے۔ ایران اب عالمی سرپرستی میں ایک ایٹمی طاقت بن سکے گا۔ اس کا جواب دینے کے لئے مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بھی اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
ان ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں سعودی عرب کی سرکردگی میں عرب ممالک اور ترکی اپنے اپنے طور پر ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔صدر باراک اوباما اور وزیر خارجہ جان کیری کا مؤقف ہے کہ یہ اندیشے درست نہیں ہیں۔ دس برس کی تگ و دو کے بعد ایران کو پہلی بار مذاکرات کے ذریعے اس بات پر آمادہ کیا گیا ہے کہ وہ یورینیم کی افزودگی کو ایٹمی ہتھیاروں کی سطح پر لانے سے گریز کرے گا۔ اس کے علاوہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو کنٹرول کرنے والے عالمی ادارے IAEA کی نگرانی کو قبول کرنے پر بھی آمادہ ہے۔ اس صورت میں یہ قرار دینا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی طرف گامزن ہو جائے گا قطعی طور سے غلط مؤقف ہے۔اس کے باوجود اسرائیلی اور عرب سفارت کار اور لابیاں واشنگٹن میں سرگرم عمل ہیں۔ ان حلقوں کی جانب سے بدستور امریکی کانگریس کے اراکین کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ صدر اوباما کی رائے اور مشورہ کے برعکس ایران پر آئندہ چھ ماہ کے دوران زیادہ پابندیاں لگانے کے لئے اقدامات کریں۔ ابھی تک اس بات کے آثار نہیں ہیں کہ ان عناصر کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہو سکے گی تاہم واشنگٹن اس وقت ایران کے خلاف کام کرنے والی لابیوں کی آماجگاہ بنا ہؤا ہے۔
ایران کے ساتھ گزشتہ روز طے ہونے والا ابتدائی معاہدہ صدر باراک اوباما کے صبر ، عزم اور سفارتکاری کی کامیابی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی امریکی صدر نے اسرائیلی مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک اہم عالمی معاہدہ کے لئے پیش رفت کی ہے۔ کسی بھی امریکی صدر کے لئے یہ اقدام انتہائی دشوار ہوتا۔ اس لئے صدر باراک اوباما نے ایران کے ساتھ مفاہمت کی راہ ہموار کرنے کے لئے غیر معمولی سیاسی جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب اسرائیلی نمائندے صدر اوباما کو شرمندہ اور ڈس کریڈٹ DISCREDIT کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔صدر اوباما کی وارننگ کے باوجود اگر امریکی کانگریس نے ایران پر پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی تو یہ معاہدہ خطرے میں پڑ جائے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے تہران واپس پہنچنے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کسی وقت بھی یہ معاہدہ ختم کر سکتا ہے۔ تاہم ایران نے نیک نیتی سے عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا ہے اور وہ اسے آئندہ 6 ماہ میں حتمی شکل دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ البتہ اگر امریکہ اور مغربی ممالک اپنے وعدے کے مطابق ایران کے فنڈز غیر منجمد کرنے اور پابندیاں نرم کرنے میں ناکام رہے تو یہ اہم معاہدہ خطرے میں پڑ جائے گا۔اسرائیل اور سعودی عرب کے علاوہ فرانس نے بھی ایران کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے شدید مخالفت کی تھی۔ فرانس کی مخالفت کی وجہ عرب ملکوں کے ساتھ اس کے اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے ہیں۔ موجودہ مشکل اقتصادی حالات میں فرانس عرب ملکوں کے وسائل حاصل کرنے کا محتاج ہے۔ اس لئے اس مجبوری کے تحت بات چیت کے دوران سب سے زیادہ رکاوٹیں فرانس کی طرف سے کھڑی کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ایران اور مغربی ممالک میں مفاہمت کے نتیجے میں تیل کی عالمی منڈیوں پر دبائو کم ہو جائے گا۔ عرب ملکوں کو اندیشہ ہے کہ تیل کی قیمت کم ہونے سے ان کی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ متعدد عرب ملکوں کی کل آمدنی کا انحصار تیل سے حاصل ہونے والے وسائل پر ہے۔ اس کے علاوہ تیل کی سیاست کی وجہ سے سعودی عرب کو امریکہ اور دیگر ملکوں میں سفارتی اور سیاسی رسوخ حاصل ہے۔ اسے یہ اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے کہ ایران کے مارکیٹ میں آنے کے بعد اس کے اثر و رسوخ میں کمی واقع ہو گی۔
ماہرین اورمبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بات اگر کسی حد تک درست بھی ہو تو بھی ایران اور مغربی ممالک کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں علاقے میں عمومی کشیدگی کم ہونے کا امکان ہے۔ اس معاہدے کی مخالفت کرنے والے ممالک کو اس معاہدے سے حاصل ہونے والے فوائد پر بھی غور کرنا چاہئے۔ ایران کے توسط سے افغانستان کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں میں موجود کشیدگی کو کم کرنے اور مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے میں بھی مدد مل سکے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان جیسے ملکوں میں انتہا پسند عناصر کی بالواسطہ امداد کی جو دوڑ ایران اور سعودی عرب کے درمیان گزشتہ دو دہائیوں سے جاری رہی ہے اس میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔بیرونی امداد بند ہونے کی صورت میں پاکستان میں انتہا پسند عناصر کی قوت میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی اور یہ ملک ایک نارمل معاشرہ کی تشکیل کا خواب پورا کر سکے گا۔ ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ طویل المدت سیاسی تناظر میں سب کے لئے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر ایران دشمن قوتیں مصالحت کے موجودہ امکانات کو ختم کرنے کے درپے رہیں تو اس کے نقصانات صرف مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رہیں گے۔