ایران (اصل میڈیا ڈیسک) تہران کا کہنا ہے کہ وہ 29 نومبر سے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں کثیرالجہتی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے جا رہا ہے۔ ایران میں اقتدار کی منتقلی کے سبب مذاکرات، جن کا مقصد معاہدے کو بحال کرنا ہے، جون سے تعطل کا شکار ہیں۔
جوہری معاہدے سے متعلق ایران کے چیف مذاکرات کار علی باقری کنی نے تین نومبر بدھ کے روز اعلان کیا کہ جوہری معاہدے کی بحالی کے مقصد سے بات چیت کے لیے ان کی حکومت نے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں آئندہ 29 نومبر کو ملاقات کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے ثالث اینرک مورا کے ساتھ فون پر بات چیت کے بعدیہ تاریخ طے کی گئی۔
علی باقری نے اپنی ایک ٹویٹ میں ان اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”ہم نے 29 نومبر کو ویانا میں غیر قانونی اور غیر انسانی پابندیوں کو ہٹانے کے مقصد سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا۔” ان کا اشارہ امریکا کی جانب سے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہوجانے اور پھر ایران پر سخت پابندیاں عائد کرنے کی طرف تھا۔
ایران میں اگست میں نئی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے حوالے سے ہونے والی بات چیت تعطل کا شکار ہے۔ اس سے قبل ایرانی حکام نے 27 اکتوبر کو کہا تھا کہ وہ نومبر کے اواخر تک بات چیت دوبارہ شروع کریں گے۔
یورپی یونین نے بھی دوبارہ بات چیت شروع ہونے کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل کی جانب سے مذاکرات کی صدارت اینرک مورا کریں گے۔
اس حوالے سے ‘یورپیئن ایکسٹرنل ایکشن سروس’ کی جانب جاری ایک بیان میں کہا گیا، ”شرکاء ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں امریکا کی ممکنہ واپسی کے امکانات اور تمام فریقین کی جانب سے معاہدے کے مکمل اور موثر نفاذ کو یقینی بنانے کے طریقہ کار پر اپنی بات چیت جاری رکھیں گے۔”
امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے ساتھ سن 2015 میں ایک جوہری معاہدہ کیا تھا، اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے اس میں اہم رول ادا کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنا تھا جبکہ اس کے بدلے میں امریکا اور دیگر ممالک کو ایران پر عائد طرح طرح کی پابندیوں کو ختم کرنا تھا۔
تاہم سن 2018 میں سابق صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکا کو یکطرفہ طور پر الگ کر لیا اور ایران پر دوبارہ سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ جواباً ایران نے بھی معاہدے کی پاسداری نہیں کی۔ گزشتہ برس جب جو بائیڈن صدر بنے تو انہوں نے اس معاہدے میں امریکا کے دوبارہ شامل ہونے کی بات کہی اور پھر اپریل میں مذاکرات شروع ہوئے۔
یہ مذاکرات چھ مرحلے تک چلے لیکن جون میں اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے جب ایران میں صدارتی انتخابات کی مہم شروع ہوئی۔ اگست میں سخت گیر موقف کے حامی ابراہیم رئیسی ایران کے نئے صدر بنے اور اقتدار کی منتقلی کا عمل شروع ہوا۔ اس دوران امریکا سمیت تقریبا ًسبھی مغربی ممالک ایران پر دوبارہ بات چیت شروع کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔
حال ہی میں امریکا نے تہران سے ”نیک نیتی” کا مظاہرہ کرنے اورمعاہدہ کو جلد از جلد بحال کرنے کی اپیل کی تھی۔ امریکی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ”یہ کھڑکی ہمیشہ نہیں کھلی رہے گی، ایران جوہری امور کے حوالے سے اشتعال انگیز اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ جلد ہی بات چیت کے لیے ویانا آئیں گے اور نیک نیتی کے ساتھ بات چیت کریں گے۔”
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ اگر ایرانی نمائندے بات چیت میں سنجیدہ رہے تو اس حوالے سے بہت جلد ایک معاہدہ ہونے کی توقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا بات چیت دوبارہ وہیں سے شروع کرنا چاہتا ہے جہاں جون تک بات پہنچ چکی تھی۔ لیکن اس بات کا امکان ہے کہ سخت گیر اسلام پسند صدر ابراہیم رئیسی بات چیت میں اپنے پیش رو کے مقابلے میں زیادہ قدامت پسند رویہ اختیار کر سکتے ہیں اور اس طرح بات شاید اتنی جلدی بننے والی نہیں ہے۔