امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے کہا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کی بحالی سے متعلق مذاکرات آیندہ اختتام ہفتہ پر دوبارہ شروع ہوں گے۔ان کا کہنا ہے کہ 18 جون کو ایران میں ہونے والے صدارتی انتخاب فی الوقت مذاکرات میں ایک پیچیدہ عامل ہوسکتے ہیں۔
وینڈی شرمین نے بدھ کے روز جرمن مارشل فنڈ کے زیر اہتمام ایک ورچوئل تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’میں جانتی ہوں کہ اس اختتام ہفتہ پرمذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔میں سمجھتی ہوں کہ بہت سی پیش رفت ہوئی ہے لیکن اپنے تجربے کی روشنی میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ جب تک مذاکرات ختم نہیں ہوجاتے اور تمام تفصیل طے نہیں ہوجاتی، تب تک ہمیں یہ پتہ نہیں چلے گا کہ ہمارا کوئی سمجھوتا طے ہوا ہے۔‘‘
چار سفارت کاروں، دو ایرانی عہدے داروں اور دو تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران سے جوہری سمجھوتے کی بحالی میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ان میں سب سے اہم یہ کہ ایران اس کی کیسے تعمیل کرےگا،اس بارےمیں ابھی تمام تفصیل طے ہونا باقی ہے۔
ایران میں 18 جون کو صدارتی انتخاب منعقد ہورہے ہیں۔ان میں سخت گیروں کے نمایندہ براہیم رئیسی کا نسبتاً کم زور اعتدال پسند امیدواروں سے مقابلہ ہے۔فاتح امیدوار موجودہ اصلاح پسند صدر حسن روحانی کی جگہ لے گا۔ یہ توقع کی جاتی ہے کہ ان کا جانشین کوئی سخت گیر صدر ہوگا۔
وینڈی شرمین نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ یقیناًایران میں صدارتی انتخابات ایک پیچیدہ مرحلہ ہیں۔‘‘لیکن انھوں نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے جبکہ ایک روز قبل ہی ایرانی حکومت کے ترجمان نے کہا تھا کہ آیندہ صدارتی انتخابات کے بعد بھی عالمی طاقتوں سے طے شدہ جوہری سمجھوتے کی بحالی سے متعلق مذاکرات میں ایرانی مؤقف میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی کیونکہ اس معاملے سے متعلق ایران کی اعلیٰ قیادت حتمی فیصلہ کرتی ہے۔
کابینہ کے ترجمان علی ربیع نے کہا کہ ’’ایران کی جوہری پالیسی کا تعیّن سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کرتے ہیں،اس کا ملکی سطح پر ہونے والی پیش رفت سے کوئی تعلق نہیں۔نئی حکومت ان ہی پالیسیوں کوبرقرار رکھے گی ، جنھیں ویانا مذاکرات میں اختیار کیا گیا ہے۔‘‘
ویانا میں امریکا اورایران کے سفارت کاروں کے درمیان اپریل سے جوہری سمجھوتے کی بحالی اوراس کی تمام شرائط کی پاسداری سے متعلق مذاکرات کے چھے بالواسطہ ادوار ہوچکے ہیں۔یورپی یونین ، چین اور روس ان مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کررہے ہیں۔
لیکن امریکا اور ایران کے درمیان بہت سے متنازع امور پر ابھی تک اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ویانامذاکرات میں امریکا کی جوہری سمجھوتے میں دوبارہ واپسی اور ایران کے لیے مجوزہ اقدامات پرغورکیا جارہا ہے۔امریکا اور عالمی طاقتیں ایران سے پابندیوں کے خاتمے کے لیے جوہری سمجھوتے کی مکمل پاسداری کا تقاضا کررہی ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018ء میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے شدہ جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پردستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور اسی سال نومبر میں ایران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔اس کے ردعمل میں ایران نے جوہری سمجھوتے کی شرائط کی مرحلہ وار پاسداری نہ کرنے کااعلان کیا تھا اور اس نے یورینیم کو اعلیٰ سطح پرافزودہ کرنا شروع کردیا تھا۔
یورپی ممالک ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کی صرف اصل شکل میں بحالی چاہتے ہیں اور وہ ایران کی مشرقِ اوسط کے خطے میں دوسری سرگرمیوں پرقدغنیں لگانے پر زور نہیں دے رہے ہیں جبکہ امریکا خطے میں ایران کے تخریبی کردار کا بھی خاتمہ چاہتا ہے اور وہ اس کے بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام اور خطے میں کردارسے متعلق بعض شقوں کا اضافہ چاہتا ہے۔