سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے کہا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کےحصول سے روکنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے خطے کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنے اہمیت پر زور دیا۔
شاہ سلمان نے کہا کہ’’ایران ایک ہمسایہ ملک ہے اور سعودی عرب کو امید ہے کہ اس کے ساتھ ابتدائی مذاکرات سے اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے لیے ٹھوس نتائج برآمد ہوں گے اور بین الاقوامی قانونی اصولوں اور قراردادوں کی پاسداری کی بنیاد پر دونوں ممالک کےعوام کی امنگوں کے مطابق دوطرفہ تعاون اور تعلقات کی راہ ہموار ہو گی۔‘‘
انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ’’ ایران دوسرے ممالک کی خودمختاری کا احترام کرے گا اور دہشت گرد گروہوں اور فرقہ وارانہ ملیشیاؤں کی حمایت سے دستبردار ہو جائے گا۔‘‘
سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ ان کا ملک اقوام متحدہ کے بانی ارکان میں سے ایک ہے اور وہ اس عالمی ادارے کے مقاصد اوراصولوں پر کاربند ہے،جن کا مقصد بین الاقوامی امن وسلامتی کو برقرار رکھنا ہے،وہ تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتا ہے، وہ ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا حامی ہے اور ان کی خودمختاری اورآزادی کا احترام کرتاہے۔
وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں سالانہ اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کر رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ ’’سعودی عرب نفرت اوراخراج پر مبنی انتہا پسندانہ نظریے ،دہشت گرد گروہوں اور فرقہ وار ملیشیاؤں کی کارروائیوں کا مقابلہ کررہا ہے۔یہ انتہا پسند دہشت گرد گروہ لوگوں اور قوموں کو تباہ کرتے ہیں۔‘‘
شاہ سلمان نے مزید کہا کہ ’’مملکت مشرق اوسط کے خطے کو بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک بنانے کی اہمیت پر زور دیتی ہے، وہ ایران کو جوہری ہتھیار تیارکرنے سے روکنے کے مقصد سے بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کرتی ہے اور ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے اقدامات پراپنی گہری تشویش کا اظہارکرتی ہے کیونکہ یہ اس کے عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کے منافی ہیں اوراس کے ہمیشہ سے اعلان کردہ مؤقف کے بھی منافی ہیں کہ اس کا جوہری پروگرام تو پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھاکہ ’’بیلسٹک میزائلوں، ڈرونز اور کھلونا نما بارود سے لدی کشتیوں کے ذریعے حملوں کے پیش نظر سعودی عرب کو اپنے دفاع کا جائزحق حاصل ہے اور وہ اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کسی بھی کوشش کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے سعودی عرب کی طرف سے ایک امن فارمولہ پیش کیا گیا تھا۔ یہ فارمولا یمن میں قیام امن کا ضامن بن سکتا ہے مگر حوثی ملیشیا کی طرف سے جنگ بندی کی تجویز کے جواب میں جارحیت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور مملکت کی شہریت آبادی پر حملے جاری ہیں۔
شاہ سلمان کا کہنا تھا کہ ’’سعودی عرب اس امر پر زور دیتا ہے کہ عالمی برادری ہر اس ملک یا شخص کے خلاف پختہ عزم کے ساتھ اٹھ کھڑی ہو، جو دہشت گرد گروہوں اور فرقہ وار ملیشیاؤں کی حمایت اورسرپرستی کرتا ہے، انھیں مالی وسائل مہیا کرتا ہے یا انھیں پناہ دیتا ہے یا انھیں انتشار اور تباہی پھیلانے اور اپنی بالادستی اور اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔‘‘
سعودی فرمانروا نے مزید کہا کہ مملکت کی خارجہ پالیسی امن واستحکام کی پائیداری، مکالمےاور تنازعات کے پرامن حل کی حمایت کرتی ہےاور ایسے حالات فراہم کرنے کو بہت اہمیت دیتی ہے جو مشرق اوسط اور دنیا بھر میں بہتر کل اور ترقی کی ضمانت دیتے ہوں اور لوگوں کی خواہشات کے حصول میں معاون ہوں۔
انھوں نے مصر اور سوڈان کے درمیان النہضہ ڈیم کے تنازع کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اس مسئلہ کے ایسے حل کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے آبی حقوق کا تحفظ ہو۔
انھوں نے اقوام متحدہ کے زیراہتمام لیبیا اور شام میں جاری بحرانوں کے پُرامن حل اور افغانستان میں امن واستحکام کے حصول کی تمام کوششیں بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے جنگ زدہ افغانستان کے تمام طبقات کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا۔
انھوں نے مملکت کے اس مؤقف کا اعادہ کیاکہ بین الاقوامی قراردادوں اور عرب امن اقدام کی بنیاد پر مسئلہ فلسطین کے ایک منصفانہ اور پائیدار حل کے ذریعے ہی مشرقِ اوسَط کے خطے میں دیرپا امن قائم کیا جاسکتا ہے اور یہ امن مشرقِ اوسط کے لیے ایک تزویراتی آپشن ہے۔اس دیرینہ تنازع کے ایک ایسے حل کی ضرورت ہے جو فلسطینی عوام کے1967ء کی سرحدوں کے اندرمشرقی بیت المقدس (یروشلیم) دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد ریاست کے قیام کے حق کی ضمانت دیتا ہو۔