ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک مرتبہ پھرکہا ہے کہ ان کا ملک جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا خواہاں نہیں اور اس کا جوہری پروگرام صرف ’’پُرامن مقاصد‘‘کے لیے ہے۔
خامنہ ای نے جمعرات کوسرکاری ٹی وی سے براہ راست نشر ہونے والی تقریر میں کہا کہ ہم جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے خواہاں ہیں اورہم جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے کوشاں نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایران جوہری ہتھیاربنانے کے کتنے قریب ہے،اس کے بارے میں مغرب کے بیانات ’’لغواور بے معنی‘‘ہیں۔انھوں نے کہا:’’اہلِ مغرب خوب جانتے ہیں کہ ہم (جوہری ہتھیار) تیار نہیں کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
خامنہ ای نے ایران اورعالمی طاقتوں کے درمیان ویانا میں جاری مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے انقلابی بھائیوں کی جانب سے پابندیاں ختم کرنے کی سفارتی کوششیں اچھی ہیں۔ان کا مقصد2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی ہےلیکن بنیادی کام پابندیوں کو بے اثرکرنا ہے‘‘۔
اس معاہدے پر دست خط کرنے والے باقی چھے ممالک ایران، روس، چین، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے درمیان اس وقت ویانا میں بات چیت ہورہی ہے۔ایران کی جانب سے واشنگٹن کے ساتھ براہ راست بات چیت سے انکار کی وجہ سے امریکابالواسطہ طورپران میں حصہ لے رہا ہے۔
فرانسیسی وزیرخارجہ ژاں وائی ویس لودریان نے بدھ کے روزکہا ہے کہ اس معاہدے کی بحالی کے فیصلہ میں ابھی چند دن باقی ہے۔ اسی روز بعد میں ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار علی باقری کانی نےٹویٹرپرکہا کہ’’ہم کسی معاہدے کے پہلے سے زیادہ قریب ہیں‘‘لیکن جب تک ہرچیزپراتفاق نہیں ہو جاتا،اس وقت تک کچھ بھی ممکن نہیں‘‘۔
مغربی حکام گذشتہ کئی ماہ سے خبردارکررہےہیں کہ معاہدے کو بچانے کے لیے صرف چند ہفتے باقی ہیں مگر ان کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ ایران کی جوہری پیش رفت کی وجہ سے یہ معاہدہ جلد ہی متروک ہو جائے گا۔
اپریل 202 سے ویانا میں جاری مذاکرات کا مقصد ایران کواس معاہدے کی تعمیل میں واپس لانا اور اس میں امریکا کی واپسی کو آسان بنانا ہے۔اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو منجمد کردیا تھا اور اس کے بدلے میں اس پرعاید پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔
امریکا کے سابق صدرڈونلڈ ٹرمپ 2018ء میں اس معاہدے سے یک طرفہ طورپر دستبردارہوگئے تھے اور اسی سال نومبر میں امریکی انتظامیہ نے ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عاید کردی تھیں۔ امریکا کی دستبرداری کے بعد ایران نے معاہدے کی پابندیوں کی خلاف ورزی شروع کردی تھی اور اس نے یورینیم کو 60 فی صد تک افزودہ کر لیا ہے اور یہ جوہری بم کی تیاری کے لیے درکار90 فی صد افزودہ یورینیم کی جانب اہم قدم ہے۔