ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران اور وینزویلا کے درمیان “تیل کے بدلے سونا” کی بنیاد پر تعلق اعلانیہ طور پر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی انتظامیہ میں وینزویلا کے امور کے ذمے دار الیوٹ ابرامز نے کچھ عرصہ قبل بتایا تھا کہ ایران کراکس کو پیش کی جانے والی خدمات کے عوض سونا حاصل کرنے کے واسطے طیاروں کو وینزویلا بھیج رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا تھا کہ یہ طیارے وینزویلا کے تیل کے سیکٹر کے لیے لوازمات منتقل کر رہے ہیں اور اس کے بدلے وہاں سے سونا لاد کر واپس لوٹ رہے ہی ں۔
اس سلسلے میں نئی پیش رفت یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار نے روئٹرز نیوز ایجنسی کو جمعرات کے روز بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کی جانب سے وینزویلا کو ایندھن کی کھیپ بھیجے جانے کے جواب میں اقدامات پر غور کر رہی ہے۔
معلومات کے مطابق درمیانی حجم کے ایک آئل ٹینکر “کلیول” نے بدھ کے روز نہر سوئز کو عبور کیا۔ سا ٹینکر پر ایرانی پرچم لہرا رہا ہے اور اس نے مارچ کے اواخر میں ایران کی بندرگاہ بندر عباس سے ایندھن بھرا تھا۔
اسی حجم کے 4 دیگر بحری جہازوں پر بھی جن پر ایرانی پرچم لگا ہوا ہے ،،، بندر عباس یا اس کے قریب سے ایندھن لادا گیا۔ یہ چاروں جہاز اٹلانٹک کو عبور کرنے کے قریب ہیں۔ معلومات کے مطابق ان میں سے کسی جہاز نے بھی اپنی حتمی منزل کا انکشاف نہیں کیا ہے۔
حزب اختلاف کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس موجود معلومات کے مطابق یہ پانچوں بحری جہاز وینزویلا جا رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامہ کے سینئر عہدے دار نے روئٹرز کو بتایا کہ امریکا کو انتہائی درجے کا یقین ہے کہ وینزویلا کے صدر نکولس میڈورو کی حکومت ایندھن کے عوض ایران کو ادائیگی میں کئی ٹن سونا دے رہی ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور وینزویلا میں تیل کے سیکٹروں کو امریکا کی سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔ وینزویلا کو معیشت کی ابتری کی صورت حال میں روزانہ کی سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کے واسطے پٹرول اور دیگر ایندھن کی مصنوعات کی شدید ضرورت ہے۔
وینزویلا کی تیل صاف کرنے کی صلاحیت یومیہ 13 لاکھ بیرل ہے۔ تاہم آخری چند برسوں میں کمزور سرمایہ کاری اور دیکھ بھال و مرمت کی کارروائیوں میں کمی کے سبب اس صلاحیت کو نقصان پہنچا ہے۔
دوسری جانب ایران بارہا اس بات سے انکار کرتا رہا ہے۔ ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی نے امریکی انتظامیہ کے موقف کو سخت نکتہ چینی کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے تہران کی جانب سے وینزویلا کو خفیہ امداد دینے کی مذمت کی تھی جس کا مقصد یہ ہے کہ وینزویلا کو درپیش تیل کی قلت پر قابو پایا جا سکے۔
چند روز قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران ربیعی کا کہنا تھا کہ “ایران اور وینزویلا کے درمیان تعلقات قانونی نوعیت کے ہیں اور یہ ایک معاہدے کے تحت ہیں۔ کسی بھی تیسرے ملک کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے”۔
ربیعی کے مطابق “امریکا اور دیگر ممالک اس موضوع کے حوالے سے میڈیا میں طوفان کھڑا کر رہے ہیں۔ تاہم انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ ایران اور وینزویلا کے بیچ مفاہمت اور معاملات بین الاقوامی قانون کے اصولوں پر مبنی ہیں”۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ابھی تک انتہائی دباؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کا مقصد وینزویلا کے صدر نکولس میڈورو کی حکومت کا سقوط ہے۔ امریکا اپوزیشن کے سربراہ خوان گوائیڈو کو ملک کا آئینی صدر شمار کرتا ہے۔