تحریر : افتخار چودھری یہ وہی ہیں جن کا ذکر میں کئی بار کر چکا ہوں سنہ ٢٠٠٠ کی بات ہے سعودی اخبار الحیاة نے خبر دی کہ جرمنی میں ایک جگہ ہے جہاں طالبان بنائے جاتے ہیں میرے لئے یہ خبر حیران کن تھی کہ یہ کون سی مشین پے تیار کیئے جاتے ہیں۔ان لوگوں کی داڑھیاں لمبی کی گئیں پشتو سکھائی گئی کچھ تھوڑا بہت علم اسلام کا اور اس کے بعد یہ لوگ پاکستان کے گلی کوچوں میں لاشوں کے انبار لگاتے رہے اجیت دوول ان کا کفیل تھا اور یہ ستم گر پاکستان کی کمر میں چھرا گھونپتے گئے۔خبر یہ ہے کہ انڈین آرمی چیف نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ بھی لڑنے کے لئے تیار ہیں۔چلیں وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی اپنی شرلی کو آزمائیں گے اور بقول شیخ رشید مندروں کی گھنٹیاں بند کریں گے۔
پھر وقت گزرا ایک بار میرے پیارے بھانجے نے مجھے بتایا کہ ماموں ہم کئی ایسے لمبی داڑھیوں والے پکڑے ہیں جن کے ختنے بھی نہیں ہوئے۔میں کانپ کے رہ گیا میرا یہ عزیز ایئر فورس کا ایک سینئر افیسر ہے اور وہ کئی بڑوں کا اے ڈی سی بھی رہ چکا ہے فطرتا بھی میرے ہاتھوں میں پلنے والا بھانجہ جھوٹ کے قریب نہیں گزرتا۔وقت گزرتا گیا اور ہم نے دیکھا کہ ٹی ٹی پی کے روپ میں پاکستان پر قیامت بن کے ٹوٹنے والے نقلی طالبان ہم پر کیا کیا ستم ڈھا گئے۔ایک وقت تھا ہر وقت القائدہ قائدہ ہوتی تھی لیکن پھر ہم نے دیکھا کوئی قائدہ نہیں ہے اب ایک داعش نامی ٹولہ ہے جو معروف ہوا ہے۔ہم بھلکڑ لوگ بھول گئے کہ کوئی بلیک واٹر تنظیم بھی تھی یہ تو اس وقت سامنے آئی جب ریمنڈ ڈیوس ایک ایکسیڈنٹ میں سامنے آیا ۔٢٠٠٩ میں اس بلیک واٹر پر ایک دوست نے لکھا بھی تھا۔لیکن اسے لاہور حادثے میں دیکھنے کا بھی موقع مل گیا۔کیا بلیک واٹر کے ہزاروں لوگ گھر چلے گئے ہیں ۔کیا اسلام آباد کا امریکی سفارت خانہ جو ایک گائوں جتنا ہے وہاں رہنے والے تراویح پڑھاتے ہیں؟کیا پاکستان ایران میں گھسنے کے لئے ایک آسان راستہ نہیں ہے؟کیا بھارتی قونصل خانوں کی بڑی تعداد پاکستان اور ایران کے بارڈروں پر موجود نہیں ہے؟اگر ہے تو ان میں کیا ہو رہا ہے۔ایرانی پارلیمنٹ کے اندر دھماکے اور خمینی کے مزار پر حملے ان ایجنٹوں نے نہیں کرائے ہوں گے۔
یاد رکھئے مکار دشمن ہاتھوں پر دستانے پہن کر وار کرتا ہے۔یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستان میں ٹی ٹی پی بن کر فوج اور معصوم افراد کو نشانہ بناتے ہیں۔اب ایران کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کا دشمن سعودی عرب نہیں اور نہ ہی اس ملک کے پاس اتنی ہمت ہے کہ وہ دوسروں کے گھروں میں گھس کر وار کرے۔اب مسئلہ یہ نہیں کہ وہاں لوگ مرے ہیں اور تباہی ہوئی ہے مسئلہ یہ ہے کہ اصل دشمن کون ہے؟
یہ دیکھنا ہو گا ایرانی ایجینسیوں اور سعودی عرب کی خفیہ ایجینسی کو۔پاکستان کی ایجینسی جو اللہ کے کرم سے دنیا کی معروف ایجینسی ہے۔اگر اس سے مدد مانگی جائے تو اس کیس کا حل نکل سکتا ہے۔لیکن مجھے پورا یقین ہے جن لوگوں نے پاکستان کو نشانہ بنایا اور اب جنہوں نے ایران کو مصیبت میں ڈالا ہے وہی سعودی عرب میں ہنگامہ آرائی کریں گے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کو پہل کر کے اسلامی کانفرنس کا انعقاد کرانا چاہئیے۔ضروری نہیں ہے کہ حکومت ہی یہ کام کرے اپوزیشن لیڈر بھی اپنے سرکل سے باہر آئیں ۔میں اپنے اس کالم میں جناب عمران خان سراج الحق راجہ ظفرالحق اعجاز الحق سید مشاہد حسین علامہ امین مشہدی عبدالرحمن مکی اور چند لوگ ہنگامی طور پر ایران اور سعودی عرب کے دورے کریں۔خالی ایٹم بم کو چاٹنے کی بجائے دو بھائیوں میں لڑائی شروع ہو ئی ہے خدا را سنبھلئے عدالتیں اپنے کام جاری رکھیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اسلامی دنیا میں ایک سرخیل کا کردار ادا کرنا چاہئے۔رہی بات راحیل شریف صاحب کی انہیں سعودی عرب میں مقیم بائیس لاکھ لوگ جو کام کرنے کے معاہدوں پر گئے ہیں ان میں سے ایک سمجھا جائے۔جعلی طالبان اب وہاں ایکشن کر رہے ہیں جو ایک دھماکے کی طرح عالم اسلام کو بھسم کر سکتا ہے۔اللہ نہ کرے