ایران پاکستان گیس پائپ لائن

Pakistan Iran

Pakistan Iran

پاکستان کا ایران کے جوہری پروگرام پر بڑا واضع موقف ہے اگرچہ پاکستان امریکہ کی پالیسایوں کے سبب مجبور ہے کہ وہ ایران کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر اسلامی ممالک کی فلاح وبہبود کیلئے لائحہ عمل تیار کرے لیکن اس کے باوجود ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبہ پرکام جاری ہے اور پاکستان کو امریکہ کی مخالفت بھرپور سامنابھی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بظاہر متضاد بیانات کے باوجود اب یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے کسی معاہدہ تک پہنچ جائے گا۔ 20 نومبر کو اس سلسلہ میں دوبارہ مذاکرات کا آغاز ہو گا۔

امریکہ اور اس کے مغربی حلیف ممالک کی طرف سے ایران پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اگرچہ ایران کی حکومت نے مسلسل ان الزامات کو مسترد کیا ہے لیکن مغربی و امریکی ماہرین یہ قرار دیتے رہے ہیں کہ ایران تیزی سے یورینیم افزودگی کے عمل میں مصروف ہے اور وہ ایک سے تین برس کے اندر ایٹمی دھماکہ کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ ایران کی طرف سے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے اور وہ جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔

امریکہ کی قیادت میں البتہ مغربی دنیا نے ایران کا یہ مؤقف مسترد کرتے ہوئے مسلسل کئی برس سے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ نے دنیا بھر کے ملکوں پر بھی یہ دباو ڈالا تھا کہ وہ ایران سے تجارت نہ کریں اور اس سے تیل خریدنا بند کر دیں۔ اس طرح امریکہ اقتصادی طور پر عاجز کر کے تہران کی حکومت کو اپنی مرضی کی شرائط ماننے پر مجبور کرنا چاہتا تھا۔اس دوران ایران کے سابق صدر احمدی نڑاد نے بھی سخت گیر رویہ اختیار کیا۔ اکثر اوقات ان کی شعلہ بیانی کی وجہ سے معاملہ انتہائی گمبھیر ہوتا رہا ہے۔

ان کے عہد حکومت میں ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہری توانائی پروگرام پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو سکا۔ اس لئے اکثر یہ خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ امریکہ ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے لئے حملہ کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔ممکنہ طور پر اس قسم کا اقدام سامنے آ سکتا تھا۔ تاہم امریکہ افغانستان اور عراق کی جنگ میں پھنس چکا تھا۔ مغربی ممالک کے علاوہ امریکی رائے عامہ جنگ کے خلاف تیار ہو رہی تھی۔ اس دوران امریکہ میں رونما ہونے والے معاشی بحران نے بھی صورتحال کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا دیا تھا۔

U.S.

U.S.

اس طرح ایک طرف سابق صدر احمدی نڑاد کی سخت گیر بیان بازی جاری رہی تو دوسری طرف امریکہ کی طرف سے ایران کو تنہا کرنے کے لئے سفارتی سطح پر سخت کوششیں ہوتی رہیں۔ اسی پس منظر میں امریکہ پاکستان پر بھی دباو ڈالتا رہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا کوئی معاہدہ نہ کرے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو اس حوالے سے سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت نے سابق صدر آصف علی زرداری کی سرکردگی میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن بچھانے کا ایک معاہدہ کر لیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران اس پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کو ارزاں نرخوں پر گیس فراہم کرے گا۔

اس کے علاوہ اس نے بلوچستان میں آئل ریفائنری لگانے کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ ملک میں نئی حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد اس معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے کچھ سست روی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لئے انرجی بحران سے نکلنے میں بہت معاون ہو گا۔ اس کے علاوہ پائپ لائن بچھانے اور آئل ریفائنری کی تعمیر کے لئے ملک میں روزگار کے بے شمار مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

امریکہ نے اپنے طور پر پاکستان کے علاوہ چین اور بھارت پر بھی ایران کا اقتصادی بائیکاٹ کرنے کے لئے سخت دباو ڈالا ہوا تھا۔ اس دباو کے نتیجے میں ان دونوں ملکوں کو ایران سے تیل کی درآمدات میں کمی کرنا پڑی تھی۔ اسی قسم کے دباو کا سامنا جاپان کو بھی رہا ہے۔البتہ ایران میں اگست میں صدر حسن روحانی کے برسر اقتدار آنے کے بعد حالات میں مثبت تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے بھی نرم روی کا مظاہرہ کیا اور صدر روحانی کو امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ جوہری پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کرنے کا اختیار دیا تھا۔

صدر روحانی نے چند ہفتے قبل اقوام متحدہ کے دورے کے دوران نیو یارک میں صدر باراک اوباما سے ملاقات کی تھی۔ لگتا ہے کہ اس ملاقات میں دونوں طرف سے برف پگھلنا شروع ہوئی ہے۔جنیوا میں سلامتی کونسل کے 5 مستقل اراکین اور جرمنی سمیت 51 گروپ نے ایران کے نمائندوں سے چار روزہ مذاکرات کئے ہیں۔ یہ بات چیت اتوار کے روز بے نتیجہ ختم ہو گئی تھی۔ اس ملاقات کے بعد اگرچہ مثبت خبریں سامنے آئی تھیں تاہم میڈیا میں اس حوالے سے سنسنی خیزی پیدا کی گئی ہے کہ اس ملاقات میں ایران کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا۔

John Kerry

John Kerry

ان افواہوں کو جان کیری کے اس بیان سے مزید تقویت حاصل ہوئی جو انہوں نے اس ملاقات کے بعد ابوظہبی پہنچ کر دیا تھا۔ اس بیان میں اگرچہ امریکی وزیر خارجہ نے مذاکرات اور معاہدہ کے حوالے سے پر امید رویہ ظاہر کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایران کی سستی کی وجہ سے معاہدہ طے نہیں پا سکا۔ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں اس تنقید کو مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران نے جوہری پروگرام کے حوالے سے واضح منصوبہ پیش کر دیا تھا اور وہ عالمی ایٹمی ایجنسی کے معائنہ کاروں کو ایران آنے کی اجازت دینے پر بھی آمادہ ہے۔ اس لئے معاہدہ میں تعطل یا تاخیر کی ذمہ داری ایران پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ایران اگرچہ جوہری پروگرام کے بارے میں معاہدے پر راضی ہو گیا ہے۔

تاہم وہ کسی ایسے معاہدے پر آمادہ نہیں ہے جس کے تحت اسے ہمیشہ کے لئے جوہری قوت بننے کے حق سے محروم کر دیا جائے۔ فی الوقت ایران یہ تسلیم کر رہا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن ہے اور وہ اس کے حوالے سے مکمل تعاون پر آمادہ ہے۔ امریکہ کی سرکردگی میں مغربی ممالک اس معاہدے کے بدلے ایران کی تیل کی مصنوعات کی تجارت پر عائد پابندیاں نرم کریں گے۔ امریکہ اور یورپ میں اس ملک کے منجمد اثاثوں کو بھی استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ خبروں کے مطابق اس معاہدے کے تحت امریکہ 15 ارب ڈالر جبکہ مغربی ممالک 35 ارب ڈالر کے ایرانی اثاثے غیر منجمد کرنے پر راضی ہوں گے۔

اس مثبت پیش رفت کے برعکس اسرائیل، سعودی عرب اور امریکی کانگریس میں سخت گیر لابی مسلسل ایران پر پابندیاں عائد رکھنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس ہفتے کے دوران سینیٹ میں اس سوال پر ایک نشست میں وزیر خارجہ جان کیری امریکی حکومت کے مؤقف اور معاہدہ کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔ ایران کی طرف سے فراخدلانہ تعاون کے نتیجے میں اب اس کے خلاف کام کرنے والے گروہوں کی قوت میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ ان حالات میں یہ امید کی جا رہی ہے کہ جنیوا میں 20 نومبر سے 51 گروپ اور ایران کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں زیر غور معاہدے کو حتمی شکل دیدی جائے گی۔ اس معاہدہ کے بعد ایک طرف ایران کو معاشی مشکلات سے نجات مل سکے گی تو دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں بڑے فوجی تصادم سے بچنے کے لئے بھی راہ ہموار ہو سکے گی۔ ایران اور مغربی ممالک کے درمیان تنازعہ کی وجہ سے مشرقی وسطیٰ میں صورتحال مسلسل سنگین اور خطرناک رہی ہے۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ