تحریر: سید توقیر زیدی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ برادر اسلامی مْلک ایران، پاکستان کے خلاف منفی سرگرمیوں میں ملوث نہیں، ”را” کے ایجنٹ کی گرفتاری پاک ایران تعلقات سے نہ جوڑی جائے، ایران کے صدر حسن روحانی اور وزیر داخلہ کا دورہ پاکستان بہت مفید رہا ہے، ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست کی مجھ سے ملاقات کے حوالے سے میڈیا کے کچھ حصوں نے ایسی خبریں دیں جن کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہوا، ایرانی سفیر نے میڈیا کے کچھ حصوں کا گلہ کیا کہ ایرانی رہبر کے کارٹون بنائے گئے اور ایسی خبریں دی گئیں جو مناسب نہیں تھیں۔ جس پر مَیں نے ایرانی سفیر سے کہا کہ (ہمارا) آزاد میڈیا کسی کو نہیں بخشتا، حکومت پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ میڈیا ہم پر بھی تنقید کرتا ہے۔ میڈیا کی طرف سے یہ تاثر دینا کہ ایران پاکستان کے خلاف کسی سازش کا حصہ ہے، درست نہیں، اِس سے پاک ایران تعلقات کو بھی شدید نقصان پہنچا، پاکستان کے عوام ایرانی عوام سے محبت کرتے ہیں، بھارتی جاسوس کا معاملہ منطقی انجام تک پہنچائیں گے، جاسوس کا ایران سے نہیں بھارت سے تعلق ہے، بعض عناصر چاہتے ہیں پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب ہوں ایران کی مداخلت بلوچستان میں نہیں ہے، پاکستان کی حکومت ، فوج اور عوام ایران سے بہترین تعلقات کے لئے پْرعزم ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی تجویز آرمی چیف نے دی تھی۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب ایرانی صدر حسن روحانی سے سوال کیا گیا کہ کیا آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کے متعلق بات ہوئی ہے تو انہوں نے کہا نہیں ہوئی، آئی ایس پی آر کی طرف سے جو کہا گیا وہ بھی درست ہے، کیونکہ ایرانی سفیر نے بھی تصدیق کی کہ چاہ بہار میں ”را” کی سرگرمیوں کے حوالے سے آرمی چیف کی بات چیت ہوئی ہے۔ چودھری نثار علی نے اِن خیالات کا اظہار ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
اِس بات میں تو اب کوئی شبہ نہیں رہ گیا کہ جس طرح پاکستان میں بعض عناصر ایران کے ساتھ تعلقات کی خرابی کے لئے سرگرم عمل ہیں اس طرح ایران میں بھی کچھ لوگوں کی کوشش ہے کہ حالات کا دھارا اْن کی مرضی سے بہنا شروع کر دے، لیکن دونوں مْلک جن اسلامی، تاریخی، علاقائی اور ثقافتی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اْن کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ کوئی طبقہ یا گروہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی راہ میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہو سکے۔ یہ کوششیں کوئی آج سے شروع نہیں ہوئیں، طویل عرصے سے جاری ہیں، لیکن دونوں ملکوں میں تعلقات کی ایک تاریخ ہے،بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ برصغیر کے مسلمان عوام کے ساتھ ایرانی بھائیوں کے تعلقات اْس وقت سے قائم ہیں جب ابھی پاکستان قائم بھی نہیں ہوا تھا۔
Pakistan
حافظ، سعدی اور عمر خیام کی سرزمین برصغیر کے مسلمانوں کے لئے کبھی اجنبی نہیں رہی،اِس خطے میں انگریز کی آمد سے پہلے ہندوستان کی سرکاری زبان بھی فارسی تھی اور خطے کے لوگ بڑی محبت سے یہ زبان سیکھتے تھے، پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اْن کا فارسی کلام ایران میں پاکستان سے زیادہ مقبول ہے اور اْردو کلام کے تراجم بھی بہت بڑی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب میں کلامِ اقبال کی اہمیت کو ایرانی دانشور بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ایران کے انقلاب میں ڈاکٹر علی شریعتی کا فکری کردار بہت نمایاں ہے جو اقبال کے شیدائیوں میں سے تھے اور اْن کا کہنا ہے کہ کلامِ اقبال نے انقلاب ایران میں جوش و ولولہ بھر دیا تھا اور ایرانی نوجوانوں کو آتش بجاں بنا دیا تھا، ان نوجوانوں نے کلام اقبال سے روشنی اور حرارت حاصل کی، علامہ اقبال? قیام پاکستان سے دس برس پہلے ہی انتقال کر گئے تھے اس کا بدیہی مطلب یہی ہے کہ ایرانی نوجوان پاکستان کے قیام سے بھی پہلے پاکستان سے متعارف تھے اور نئے مْلک کے قیام کے ساتھ ہی دونوں ملکوں میں بہترین تعلقات استوار ہو گئے،1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے پاکستان کی بہت مدد کی اوریہ مْلک پاکستان کے لئے سٹرٹیجک گہرائی کے لئے استعمال ہوتا رہا۔
درست ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایسے مواقع بھی آئے جب سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے باہمی گرم جوشی میں کچھ کمی آ گئی اور عالمی امور پر سیاسی اختلاف نے تعلقات میں دراڑ ڈال دی، لیکن مجموعی طور پر دونوں ملکوں کے تعلقات ہمیشہ دوستانہ ہی رہے۔ ایرانی صدر کا دورہ کئی ماہ سے شیڈول تھا۔ واقعاتِ عالم کی رفتار کسی فرد یا مْلک کے تابع نہیں وہ اپنی چال کے ساتھ چلتے رہتے ہیں، یہ محض اتفاق ہے کہ صدر حسن روحانی کے دورے سے پہلے ایک بھارتی جاسوس پکڑا گیا، جس نے اپنا نیٹ ورک ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں قائم کر رکھا تھا وہیں تاجر کے روپ میں مقیم تھا اور تاجر کے ویزے پر ہی ایران کے اندر سفر کرتا تھا۔ لا محالہ جاسوسی کے اس نیٹ ورک میں جو دوسرے لوگ بھی شامل تھے وہ بھی بھارتی تھے، لیکن انہوں نے اپنے نام بدل رکھے تھے، کل بھوشن نے بھی اپنا نام مسلمانوں والا رکھا ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر بعض اوقات نمازیں بھی ادا کرتا تھا، ان حالات میں عین ممکن ہے کہ عام ایرانی انہیں مسلمان ہی سمجھتے ہوں،کیونکہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 20کروڑ سے زیادہ ہے، اس لئے دوسرے بہت سے مسلمان بھی ایران آتے جاتے ہیں۔
اِن حالات میں کسی کو شبہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایک جاسوس ہے اور پاکستان کے خلاف کام کر ر ہا ہے، پاکستان کے اداروں کو بھی اس کا علم کوئی سات آٹھ ماہ پہلے ہوا اس سے پہلے وہ پاکستان آتا جاتا رہا اور کسی کو اس کی سرگرمیوں کے متعلق کوئی شک نہ گزرا ، وہ جس طرح پاکستانیوں کی نگاہوں سے اوجھل تھا اور اس کی سرگرمیوں پر کوئی شبہ نہیں کیا جا رہا تھا اس طرح وہ ایرانی اداروں کی نگاہوں سے بھی مخفی ہو گا اور وہ بھی اسے عام ہندوستانی تاجر ہی سمجھتے رہے، تو اس میں حیرت کی بات کیا ہے؟ اب جب اس کی حقیقت کھلی تو ہر کوئی ششدر رہ گیا، لیکن اگر اس کے بارے میں دیر سے معلومات حاصل ہوئیں تو اس میں ایرانی حکام کا کیا قصور۔۔؟
Pakistani media
پاکستانی میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا میں ایسے معاملات پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض اوقات معروضی حالات کو پیشِ نظر نہیں رکھا جاتا، یہ بھی عین ممکن ہے کہ کوئی تبصرہ نگار پہلے سے ایران کے بارے میں تحفظات رکھتا ہو اور اب اس واقعے سے اسے بات کا بتنگڑ بنانے کا موقع مل گیا ہو، پاکستان میں ایسے عناصر کی موجودگی سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا، جو ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ایک مخصوص پس منظر میں دیکھتے ہیں اب اگر اِن لوگوں میں سے کسی نے کسی چینل پر ایران کی حکومت یا اس کے رہنماؤں کے خلاف کوئی بات کہہ دی تو اس کے ساتھ حکومتِ پاکستان کا تو کوئی تعلق نہیں، نہ سرکاری چینل پر یہ بات کہی گئی ہے تو ایرانی حکام کو واضح رہنا چاہئے کہ جو لوگ ایران کے خلاف بات کرتے رہے، ان لوگوں کا تعلق نہ تو حکومت سے ہے اور نہ یہ پاکستان کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی مجموعی طور پر ایران کی دوستی پر فخر کرتے ہیں اور اس میں اضافے کی خواہش رکھتے ہیں، پاکستان کے کچھ انسانی سمگلر اگر بعض سادہ لوح لوگوں کو غیر قانونی طور پر ایران لے جاتے اور وہاں بے یارو مدد گار چھوڑ دیتے ہیں تو اس معاملے سے نہ تو حکومتِ پاکستان کا کوئی تعلق ہے اور نہ پاکستانی قوم کا، اِسی طرح اگر کسی نے ایرانی سرحد پر یا اس کے اندر گھس کر کوئی مجرمانہ واردات کی ہے تو ایسے عناصر تو پاکستان کے عوام اور پاکستان کی حکومت کے خلاف بھی سرگرم رہتے ہیں اور اب بھی ہیں۔
اگر کسی اخبار میں ایرانی رہنما کا کارٹون بنا دیا گیا ہے تو پاکستانی اخبارات نہ تو حکومتِ پاکستان کی ملکیت ہیں اور نہ سرکاری سرپرستی انہیں حاصل ہے۔ ایرانی حکام کو اس سب کا پس منظر معلوم ہونا چاہئے۔ وزیر داخلہ کے ساتھ ایرانی سفیر نے اپنی جو شکایات کی ہیں وہ اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں اور ایرانی حکومت کے جذبات کی عکاس بھی، لیکن وزیر داخلہ کے اختیارات بھی اس ضمن میں لامحدود نہیں ہیں، انہیں بھی اگر کسی اخبار کے خلاف شکایت ہے تو عدالتوں کا راستہ ہی اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے، پھر کسی ایک کارٹون کی اشاعت کا مطلب یہ بھی نہیں کہ پاکستان میں میڈیا کی اکثریت نے ایران کے خلاف کوئی محاذ بنا رکھا ہے، چند لوگوں کی رائے کا مطلب بطور مجموعی قوم کی رائے نہیں ہے، پاکستانی قوم ایران کے ساتھ ہے اور تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ایران اس حقیقت کو پیش نظر رکھے تو اسے شکایات کم سے کم ہوں گی۔ تاہم اگر حکومت پاکستان یہ چاہتی ہے کہ ایران سے بھارتی ایجنٹوں کا نیٹ ورک ختم کیا جائے اور کل بھوشن یادیو کے کوئی ساتھی اگر وہاں ہوں اور گرفتار ہو جائیں تو انہیں پاکستان کے حوالے کر دیا جائے یا خود ایران ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے تو ایران کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کوئی ایسی خواہش بھی نہیں کہ ایک دوست اور برادر مْلک کو اس پر کوئی اعتراض ہو۔ ایرانی اخبارات میں بھی ایسے خیالات کا اظہار ہوتا رہتا ہے جو حکومت ایران کی فکر سے مطابقت نہیں رکھتے، پاکستان نے ان خیالات پر کبھی احتجاج نہیں کیا۔