واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ ان کا ایران پالیسی کے بارے میں اپنے مشیروں سے کوئی اختلاف نہیں۔انھوں نے خاص طور پر اپنے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا حوالہ دیا ہے جو بعض میڈیا اطلاعات کے مطابق انھیں ایران کے خلاف جنگ میں جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں۔
انھوں نے اپنے ان مشیروں کے حوالے سے امریکی میڈیا کی خبری رپورٹس کو مسترد کردیا ہے۔امریکی صدر نے جمعرات کو قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شناہن سمیت اپنے قریبی مشیروں سے کہا تھا کہ وہ ایران کے خلاف جنگ نہیں چاہتے ہیں۔
انھوں نے جمعہ کو واشنگٹن میں ایک کنونشن میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ نیوز میڈیا نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ میں اپنے لوگوں سے نالاں ہوں ۔میں اپنے لوگوں سے ہرگز بھی ناراض نہیں ہوں۔میں اپنے فیصلے خود کرتا ہوں ۔مائیک پومپیو اچھا کام کررہے ہیں، جان بولٹن اچھا کام کررہے ہیں‘‘۔
جان بولٹن ایران کے بارے میں ایک سخت گیر موقف کی شہرت کے حامل ہیں اور انھیں ٹرمپ انتظامیہ میں ’’ شکرا‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔وہ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ امریکا کو ایران کے بارے میں سخت موقف اختیار کرنا چاہیے۔انھوں نے خود ایک سال قبل وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے قدم رکھنے کے بعد سے ٹرمپ انتظامیہ میں ایران سے متعلق سخت نقطہ نظر اختیار کررکھا ہے۔
تاہم ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینیر عہدے دار نے صحافیوں ایک گروپ سے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم سب کو اس نعرے سے مایوسی ہوئی ہے کہ ہم تنازع چاہتے ہیں لیکن اس میں کچھ بھی سچائی نہیں ہوسکتی کیونکہ ہم تو کشیدگی میں کمی چاہتے ہیں‘‘۔
ان سے اس رائے کے بارے میں سوال کیا گیا تھا کہ جان بولٹن اور مائیک پومپیو صدر ٹرمپ کو جنگ کی راہ کے طرف کھینچ رہے ہیں۔ انھوں نے اس کے جواب میں کہا کہ ’’ ٹرمپ کو کسی بھی راہ کی جانب کھینچنا ایک ناکام حکمت عملی ہے اور اس بات کے بہت سے گواہ موجود ہیں‘‘۔
اس عہدہ دار کا کہنا تھا کہ جان بولٹن کا ایران کے بارے میں موقف بڑا واضح ہے لیکن انھیں کوئی التباس نہیں ہے ۔وہ صدر کی خدمات بجا لارہے ہیں۔انھوں نے صدر کی پالیسیوں سے اتفاق کیا تھا اور وہ ان میں یقین رکھتے ہیں ،جبھی تو وہ ان پر عمل درآمد کررہے ہیں ۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ صدر ٹرمپ تو ایران سے براہ راست بات چیت چاہتے ہیں کیا ایران کی جانب سے اس کا کوئی اشارہ ملا ہے؟ کیا ایرانی بھی براہ راست بات چیت کے لیے تیار ہیں؟اس کے جواب میں انھو ں نے کہا کہ انھیں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے۔وہ تو فون کے پاس بیٹھے ،ان کے فون کے منتظر ہیں۔
ایران اور امریکا کے درمیان اس وقت سخت کشیدگی پائی جارہی ہے اور امریکا نے ایران کی کسی ممکنہ اشتعال انگیزی سے نمٹنے کے لیے اپنا ایک طیارہ بردار بحری بیڑا اور بی 52 بمباروں سمیت مزید لڑاکا طیارے مشرقِ اوسط میں بھیج دیے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ اگر ایران نے امریکی مفادات کو ہدف بنانے کی کوشش کی تو اس کو ’’بھاری خمیازہ ‘‘بھگتنا پڑے گا۔
امریکی عہدے داروں کے ایران کے خلاف تند وتیز بیانات کے برعکس ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ تو ان کی کوئی جنگ نہیں ہونے جارہی ہے۔ انھوں نے گذشتہ منگل کے روز ایک تقریر میں کہا تھا کہ ایران اور امریکا کے درمیان آمنا سامنا کسی فوجی مڈ بھیڑ کے بجائے دراصل عزم کا امتحان ہے۔
انھوں نے کہا:’’ یہ ٹاکرا کوئی فوجی نہیں کیونکہ کوئی جنگ تو ہو نہیں رہی ہے۔ نہ تو ہم اور نہ وہ ( امریکی) جنگ چاہتے ہیں۔وہ اس کو بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ یہ جنگ ان کے مفاد میں نہیں ہوگی‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے خلاف ایران کے پاس یقینی آپشن مزاحمت ہی کا ہے۔