تہران (جیوڈیسک) ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے صدر حسن روحانی کو امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے صدر حسن روحانی کو امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے اور طویل عرصے پر پھیلی دشمنی ختم کرنے ٹاسک دیا ہے۔
خامنہ ای کا خیال ہے کہ اگر موجودہ حالات میں امریکا نے شام پر حملہ کیا تو تہران ،واشنگٹن مذاکرات نہ صرف التوا کا شکار ہوں گے بلکہ شام پر حملہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا باعث بنے گا اور مفاہمت کی تمام امیدیں ختم ہو جائیں گی۔ ایران کے سابق جوہری مذاکرات کار موسویان نے اس بات کا انکشاف ایک مضمون میں کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تلف کرنیکے بارے میں امریکا اور ایران دونوں میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔ دونوں ملک ایسے ہتھیاروں کے استعمال کو سنگین جرم قرار دیتے ہیں۔ ایران اس طرح کے ہتھیاروں کا سابق عراقی صدر صدام حسین کے دور آٹھ سال تک نشانہ بنتا رہا ہے۔
ایران یہ چاہتا ہے کہ مشرق وسطی کو تباہ کن اسلحے سے پاک خطہ قرار دینے کے لیے عالمی برادری سے تعاون کرے لیکن اس میدان میں صرف ایران پردبا ڈالنا کافی نہیں ہوگا۔ حسین موسویان نے اپنے مضمون میں امریکا کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ اگر واشنگٹن، شام کے خلاف فوجی کارروائی کرتا ہے یہ اس کی ایک بڑی غلطی ہوگی کیونکہ اس غلطی کے نتیجے میں وہ ایران میں حسن روحانی جیسے معتدل صدر سے بات چیت سے محروم اور ایران کے جوہری تنازع کے حل میں ناکام ہو جائے گا۔