پیونگ یانگ (جیوڈیسک) شمالی کوریا کے حوالے سے امریکی پالیسی کوئی واضح سمت اختیار نہیں کر رہی ہے۔ ایسے میں روس اور ایران پیونگ یانگ کے ساتھ باہمی روابط بہتر بنا کر اسٹریٹیجک لحاظ سے میدان مارنے کی کوششوں میں ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر چیرمین کم جونگ ان کا مشرقی شہر ولادی ووستوک میں پچھلے ہفتے ملاقات کی تھی۔ یہ میٹنگ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس سال فروری میں ویت نام میں شمالی کوریائی لیڈر کے ساتھ ہونے والی سمٹ سے بظاہر بالکل ہی مختلف دکھائی دی۔ پوٹن سے ملاقات کے بعد بات چیت کرتے ہوئے کم نے ٹرمپ کی حکمت عملی کو یکطرفہ اور عدم اعتماد پر مبنی قرار دیا جبکہ ماسکو کے ساتھ روابط کو روایتی و اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل قرار دیا۔
ایک ایسے وقت جب شمالی کوریا کے حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی ڈگمگا رہی ہے، روس وہ واحد ملک نہیں جو پیونگ یانگ کے ساتھ قربت کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اتوار اٹھائیس اپریل کو اعلان کیا کہ وہ عنقریب شمالی کوریا کا دورہ کریں گے۔ ایران اور شمالی کوریا کے تعلقات سن 1980 کی دہائی سے چلے آ رہے ہیں۔ اسلامی انقلاب کے بعد یہ تعلقات بہتر ہوتے گئے اور پھر اسی دہائی کے دوران ایران، عراق جنگ میں تہران حکومت کے لیے شمالی کوریا ہتھیاروں کی فراہمی کا ذریعہ بنا۔
تاریخی طور پر ان ممالک کے باہمی روابط ضروریات کی بنیاد پر ہی تھے۔ ایران کا کافی حد تک دار و مدار خام تیل کی برآمد پر ہے۔ اور اب جب کہ امریکا نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ایرانی تیل خریدنے والے ملکوں کو حاصل امریکی پابندیوں سے استثنی دو مئی کو ختم ہو جائے گا، اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایران کے لیے شمالی کوریا کی طرف بڑھنے کا یہ بہتر موقع ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب شمالی کوریا سے قربت بڑھانے کے روسی مقاصد ذرا مختلف ہیں۔ ماسکو حکومت شمال مشرقی ایشیا میں اپنا کردار بڑھانا چاہتی ہے۔ سرد جنگ کے دور میں سابقہ سوویت یونین کمیونسٹ ریاست شمالی کوریاکا اہم حمایتی تھا۔ پھر سن 1950 سے سن 1953 تک جاری رہنے والی جزیرہ نما کوریا کی جنگ میں بھی چین اور روس ہی نے پیونگ یانگ کی حمایت جاری رکھی تھی۔ جوہری ہتھیار کی تیاری میں بھی اندازوں کے مطابق روس نے شمالی کوریائی سائنسدانوں کی معاونت کی تھی۔
روس کی جانب سے شمالی کوریا سے تعلقات بڑھانے کی تازہ کوشش خطے میں سیاسی و اقتصادی ساکھ کو مزید مستحکم بنانا خیال کیا گیا ہے۔