افغانستان (جیوڈیسک) افغانستان نے ایران اور روس سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کابل سے تعاون کریں اور شدت پسند گروپ طالبان کے ساتھ رابطے ختم کریں۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث کسی بھی گروپ کے ساتھ دوسرے کسی ملک کے تعلقات قطعا مناسب نہیں ہیں۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں آ رہی ہیں کہ روس اور ایران افغان طالبان کی پشت پناہی کررہے ہیں اور یہ دونوں ملک افغان حکومت مخالف طالبان کی لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے ہوئے کابل کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔
حالیہ ایام میں افغانستان کے سیکیورٹی حکام نے دعویٰ کیا تھا ہے کہ تاجکستان کی سرحد سے طالبان کے اسلحہ سے بھرے ٹرک افغانستان داخل ہوئے ہیں۔ اسلحہ بردار ٹرک روسی ساختہ بتائے جاتے ہیں۔ کابل حکام نے روسی ساختہ اسلحہ بردار ٹک بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود افغانستان لانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پولیس نے تاجکستان کی سرحد سے اندر داخل ہونے والے اسلحہ سے بھرے روسی ٹرک قبضے میں لے لیے ہیں اور اس حوالے سے سرکاری سطح پر روس سے رابطہ کرنے کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
حال ہی میں طالبان کے ایک سینیر کمانڈر نے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ گذشتہ اکتوبر میں قندوز شہر پر قبضے میں روس نے طالبان کی مدد کی تھی مگر یہ قبضہ چند دن ہی تک قائم رہ سکا تھا۔ افغانستان میں متعین امریکی فوج کے سربراہ جنرل جون نکلسن نے الزام عاید کیا ہے کہ روس داعش کی سرکوبی کے لیے طالبان جنگجوؤں کو اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض ممالک اپنے حاسدانہ اثرو نفوذ کو بڑھانے کے لیے افغانستان میں اپنی مداخلت کر رہے ہیں۔
حال ہی میں افغانستان میں متعین ایرانی سفیر محمد رضا بہرامی نے بھی اعتراف کیا تھا کہ افغان طالبان اور ایران حکومت کے درمیان رابطے موجود ہیں۔ ایک افغان ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ تہران کے طالبان کے ساتھ رابطےہیں مگر تعلقات نہیں ہیں۔۔
انہوں نے یہ بیان تحریک طالبان کے ترجمان ملا ذبیح اللہ کے اس بیان کے رد عمل میں دیا جس میں ملا ذبیح اللہ نے کہا تھا کہ طالبان کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہیں۔