نیویارک (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ ایران کے خلاف وہ پابندیاں پھر لگا دے جو اٹھائی جا چکی ہیں، لیکن ٹرمپ انتظامیہ کو سلامتی کونسل میں ایک ’تاریخی ناکامی‘ کا سامنا ہے۔ کل پندرہ میں سے تیرہ ممالک اس امریکی مطالبے کے خلاف ہیں۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر سے ہفتہ بائیس اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق امریکی حکومت نے ایران کے خلاف عالمی ادارے کی ماضی میں اٹھائی جا چکی پابندیاں بحال کرنے کا جو مطالبہ کیا ہے، اس کے نتیجے میں امریکا خود ہی الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ عالمی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کی تعداد 15 ہے اور ان میں سے 13 نے تہران سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبے کی تحریری مخالفت کر دی ہے۔
ان ممالک نے امریکی کوشش کی مخالفت یہ کہہ کر کی کہ یہ درست ہے کہ ماضی میں اقوام متحدہ نے ایران کے خلاف اس کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے پابندیاں لگائی تھیں۔ پھر عالمی طاقتوں کا ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ طے پا گیا تو یہ پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔
اب لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے ان پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ تو کر دیا ہے، مگر ساتھ ہی واشنگٹن حکومت یہ بھول گئی ہے کہ خود امریکی صدر ٹرمپ نے ہی دو سال قبل یک طرفہ طور پر یہ اعلان کر دیا تھا کہ امریکا ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے نکل رہا ہے۔
ان 13 ممالک کے مطابق امریکا کی یہ کوشش اس لیے غلط ہے کہ اس نے تو اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کر دیا تھا، جس پر اقوام متحدہ نے بھی باقاعدہ اتفاق کیا تھا۔ تو اب امریکا کس منطق کے تحت دوبارہ ایران کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کر سکتا ہے؟
نیوز ایجنسی روئٹرز نے نیو یارک سے لکھا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک 30 روزہ ڈیڈ لائن یا کاؤنٹ ڈاؤن کا ذکر بھی کیا تھا۔ لیکن اس کاؤنٹ ڈاؤن کے آغاز کے صرف 24 گھنٹوں کے اندر اندر ہی کئی ممالک نے اس امریکی مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے باقاعدہ خط بھی لکھ دیے۔
اہم بات یہ ہے کہ ان ممالک میں کئی ایسی مغربی طاقتیں بھی شامل ہیں، جو ماضی میں سلامتی کونسل میں تقریباﹰ ہمیشہ ہی امریکا کی ہم نوا اور ہم خیال رہی ہیں۔ روئٹرز کے مطابق اس کے نامہ نگاروں نے ایسے کل 13 خط دیکھے ہیں، جو سلامتی کونسل کے صدر کو لکھے گئے ہیں اور جن میں کہا گیا ہے کہ ایران کے خلاف عالمی پابندیاں بحال نہیں کی جانا چاہییں۔
مخالف کرنے والے تیرہ ممالک میں امریکا کے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور بیلجیم جیسے روایتی اتحادی ملک اور چین، روس، ویت نام، نائجر، سینٹ ونسینٹ اور گریناڈینز، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، ایسٹونیا اور تیونس شامل ہیں۔
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
اقوام متحدہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق سلامتی کونسل کے رکن ملک ڈومینیکن ریپبلک نے ابھی تک بظاہر یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ امریکی مطالبے کی حمایت کرے گا یا مخالفت۔ عملاﹰ تاہم اس ملک نے ابھی تک سلامتی کونسل کے نام کوئی خط نہیں لکھا۔
ایران سے متعلق اس تازہ امریکی مطالبے سے قبل امریکا نے سلامتی کونسل میں تہران ہی سے متعلق گزشتہ ہفتے جو قرارداد پیش کی تھی، وہ بھی بہت بڑی اکثریت سے مسترد کر دی گئی تھی۔ اس رائے شماری میں امریکا کا ہم نوا واحد ملک ڈومینیکن ریبپلک تھا، جس نے ہاں میں ووٹ دیا تھا۔
یہ قرارداد اقوام متحدہ کی ایران کو ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد اس پابندی میں توسیع سے متعلق تھی، جو اس سال اکتوبر میں ختم ہو رہی ہے۔ اپنی پیش کردہ اس قرارداد کی ناکامی کے بعد ہی امریکا نے عالمی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایران کے خلاف اپنی ماضی کی پابندیاں بحال کر دے۔
امریکی وزیر خارجہ نے عالمی ادارے کو ایران کے خلاف پابندیوں سے متعلق جو ڈیڈ لائن دی ہے، اس کے مطابق اقوام متحدہ کو تہران کے خلاف اپنے سابقہ پابندیاں 19 ستمبر کو عالمی وقت کے مطابق نصف شب سے بحال کر دینا چاہییں۔
اہم بات یہ ہے کہ اس تاریخ سے محض چند روز بعد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب بھی کریں گے۔ اس سال کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس زیادہ تر ایک ورچوئل اجلاس ہو گا۔
کئی بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے سلامتی کونسل میں امریکا کے اس طرح الگ تھلگ ہو کر رہ جانے کو واشنگٹن کی سفارت کاری کی ‘تاریخی ناکامی‘ قرار دیا ہے۔