نیویارک (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا ایران پر عاید کی گئی پابندیاں نہیں اٹھائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ کہ ایران نے مذاکرات کے لیے پابندیاں اٹھانے کی شرط عاید کی ہے مگر ہم تہران کی اس شرط کوقبول نہیں کریں گے۔
امریکی صدر نے پابندیاں اٹھانے کے بدلے میں ایرانیوں سے ان کے ملنے کی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔
اخبار ‘دی ھیل’ کے مطابق کانگرس کے ارکان کو گذشتہ روز ایک بند کمرہ اجلاس میں سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ایران کی طرف سے کیے گئے حملوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ خیال رہے کہ امریکا پہلے ہی سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں میں ایران کو مورد الزام ٹھہرا چکا ہے۔
مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر پوسٹ کردہ ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے لکھا کہ “ایرانی لیڈر چاہتے ہیں کہ میں ان سے ملنے کے لیے ایران پرعائد پابندیاں ختم کردوں۔ میں نے کہہ دیا ہے کہ بالکل نہیں۔”
سینیٹرز نے بتایا کہ ان کو یہ بریفنگ پینٹاگون اور امریکی انٹیلی جنس حکام نے فراہم کی۔
بریفنگ کے بعد صدر ٹرمپ کے قریبی اتحادی سینیٹر لنڈسے گراہم نے ایران کو مناسب پیغام پہنچانے کے لئے فوجی ردعمل کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اس انتظار میں ہیں کہ اتحاد بننے کے بعد کیا ہوگا؟
گراہم نے فوجی رد عمل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میں اب سے زیادہ پرعزم ہوں کہ ایران کے خلاف فوجی ایکشن لیا جانا چاہیئے۔ انہیں اپنی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ پابندیوں سے یہ کام کبھی نہیں ہوگا۔ ہمیں فوجی انتقامی کارروائی کے بارے میں سوچنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی طرف سے دنیا کو پریشان کرنے کے نتائج جلد سامنے آئیں گے۔ ان کا اشارہ ایران پر مزید اقتصادی پابندیوں کے نفاذ کی طرف تھا۔
ریپبلکن سینیٹر مِٹ رومنی نے خفیہ بریفنگ کے بعد تبصرہ کیا کہ “میں سعودی عرب کے لیے یقینی طور پر وہ کام کرنے کے حق کی حمایت کرتا ہوں جو ان کے مفاد میں ہے۔ ان کے ملک پر حملہ ہوا ہے۔ تاہم بہتر ہے کہ ہماری فوج ایران کے خلاف فوج کارروائی میں براہ راست شریک نہ ہو۔”
پیر کے روز برطانیہ، جرمنی، فرانس، امریکا کے دیگر اتحادی ممالک نے سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ایران کے ملوث ہونے کا الزام عاید کیا۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ سعودی عرب پر حملوں کے حوالے سے اس علاوہ کوئی اور معقول وضاحت موجود نہیں ہے۔
مشترکہ بیان میں تینوں ممالک جو اب بھی ایران کے ساتھ 2015ء کے جوہری معاہدے کے فریق ہیں نے کہا کہ “اب وقت آگیا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے لیے طویل مدتی فریم ورک کی بات چیت کو قبول کرے۔ ساتھ ہی علاقائی سلامتی سے متعلق امور، میزائل پروگرام اور دیگر امور پر پائے جانے والے تنازعات حل کرے۔”