ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکی انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے پابندیوں کے ورق کواستعمال کرتے ہوئے اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔
ظریف نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر متعدد ٹویٹس میں لکھا کہ یہ افسوسناک اور ستم ظریفی کی بات ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ اب ایران سے اس جوہری معاہدے کا احترام کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جس سے ٹرمپ انتظامیہ نے دستبرداری اختیار کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ ٹرمپ کے نقش قدم پر چل رہی ہے اور ایران پر پابندیوں تہران پر دباو کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بری عادات آسانی سے نہیں بدلتیں۔ اب اس عادت کو ترک کرنے کا وقت آگیا ہے۔
پولیٹیکو کے مطابق بائیڈن ٹیم ایرانیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ اس ہفتے کےایران کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے لیے ایک نئی تجویز پیش کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔
ایک ذرائع نے ویب سائٹ کو بتایا کہ اس تجویز میں ایران سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اپنی کچھ جوہری سرگرمیاں بند کردے جن میں اعلی درجے کی سنٹری فیوجز پر کام کرنا اور یورینیم کو بیس فیصد تک افزودہ کرنا ہے۔ تاہم ایران امریکا کی ایسی کسی تجویز کو قبول کرے اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس سال کے شروع میں تہران نے ایسی ہی ایک امریکی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ ایران اس طرح کی تجاویز کو ناقابل قبول قرار دیتا ہے۔