ایران کے خلاف پابندیوں کا معاملہ: امریکا ایک طرف، عالمی برادری دوسری طرف

 Iran - Weapons

Iran – Weapons

ایران (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی حکومت ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں بحال کرنا چاہتی ہے مگر اسے یورپی ممالک کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ یہ معاملہ امریکا اور اس کے روایتی اتحادیوں کے مابین خلیج پیدا کر رہا ہے۔

امریکی انتظامیہ ایک اور یکطرفہ قدم اٹھاتے ہوئے ہفتے کو ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں بحال کر رہی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ‘اسنیپ بیک نامی ایک متنازعہ طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں بحال کر رہی ہے۔ ایران کے لیے انتظامیہ کے خصوصی اہلکار ایلیٹ ابراہم نے بتایا ہے کہ ہفتے انیس ستمبر کو بین الاقوامی وقت کے مطابق شام آٹھ بجے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی وہ تمام پابندیاں بحال ہو جائیں گی، جو سن 2015 میں طے پانے والی ڈیل کے بعد معطل ہو گئی تھیں۔ علاوہ ازیں ایران پر ہتھیاروں کی فروخت کے سلسلے میں عائد
پابندی کی مدت بھی اکتوبر کے وسط میں ختم ہو رہی تھی، جو تازہ امریکی اقدامات کے بعد ختم نہیں ہو گی۔

اگست کے وسط میں ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر اسلحے کی فروخت پر پابندی برقرار رکھنے اور پابندیوں کی بحالی کے لیے سلامتی کونسل سے رجوع کیا جہاں اسے زبردست شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ تقریبا تمام روایتی اتحادیوں نے ٹرمپ کی مخالفت کی، جس پر بعد ازاں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چین اور روس سمیت یورپی اتحادیوں پر شدید تنقید کی اور ان پر ‘ایرانی آیت اللہ کا ساتھ دینے کا الزام لگایا۔ بیس اگست کو واشنگٹن انتظامیہ نے متنازعہ ‘اسنیپ بیک طریقہ کار اختیار کرنے کا اعلان کیا۔

واضح رہے کہ ایران کے خلاف عائد اقوام متحدہ کی پابندیاں سن 2015 میں طے پانے والی جوہری ڈیل کے بعد معطل ہو گئی تھیں جبکہ ایران کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق پابندی کی مدت بھی اگلے ماہ ختم ہونے کو تھی۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے تیرہ ارکان امریکی حکومت کے اقدامات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ سفارت کاروں کا ماننا ہے کہ شاید چند ہی ریاستیں امریکی اقدام کے بعد ایران کے خلاف پابندیاں بحال کریں۔ جرمنی برطانیہ اور فرانس ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی پر متفق ہیں۔ تینوں یورپی ممالک نے اس بات کا اظہار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو لکھے گئے ایک خط میں کیا۔ اس خط کے مطابق ایران کے خلاف دوبارہ پابندیوں کا نفاذ قانونی تقاضوں کے خلاف ہوگا۔ جرمنی برطانیہ اور فرانس نے مطالبہ کیا کہ سن 2015 میں تہران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد جاری رکھنا چاہیے۔ امریکا نے سن 2018 میں یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔