اسلام آباد (جیوڈیسک) امریکا نے حال ہی میں اپنے طیارہ بردار جنگی بحری بیڑے مشرق وسطیٰ میں بھیجے ہیں، جس سے خطے میں کشیدگی بڑھ جانے کا امکان زیادہ ہو گیا ہے۔ ایران کی طرف سے اس کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کی کچھ شقوں کو جزوی طور پر غیر مؤثر قرار دیے جانے کے بعد بھی صورت حال مزید خراب ہوئی ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ خطے میں کسی ممکنہ جنگ یا ایران میں سیاسی انتشار کی صورت میں اسلام آباد کا کردار بہت اہم ہو جائے گا۔ ماضی میں خطے میں ہونے والی جنگوں میں پاکستان نے واشنگٹن کا ساتھ دیا تھا۔ کالعدم سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی مداخلت کے بعد پاکستان نے امریکا اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر افغان مجاہدین کی مدد کی تھی اور پھر عشروں بعد نائن الیون کے حملوں کے بعد بھی پاکستان نے افغانستان پر واشگٹن کی فوجی چڑھائی حملے کے بعد بھی امریکا کی مدد کی تھی۔
کشیدگی کے اس تناظر میں بدھ آٹھ مئی کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں کی گئی تقریریں بھی بہت اہمیت اختیار کر گئیں۔ اس سیمینار میں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران کے علاوہ خطے کی موجودہ صورت حال پر بھی اظہار رائے کیا گیا۔ پاکستانی سینیٹ کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں کسی نئے ’فوجی ایڈونچر‘ کی حمایت نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنی سرزمین کو تہران کے خلاف استعمال ہونے دے گا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک رہنما جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان ایران کے خلاف جارحیت، تہران کی سفارتی تنہائی یا اس کے خلاف اقتصادی گھیراؤ کی کبھی حمایت نہیں کرے گا۔
تاہم سیمینار ہالوں سے باہر ملکی سیاست دان اور تجزیہ نگار ایسا امید افزا منظر بھی پیش نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں پاکستان کسی نئی جنگ کی صورت میں اپنی غیر جانبداری برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ پاکستان پہلے ہی چینی کیمپ سے امریکی کیمپ کی طرف جا رہا ہے اور واشنگٹن اس سے جانبداری کا مطالبہ کرے گا۔
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکی کیمپ میں سعودی عرب بھی ہے، جس سے ہم مالی امداد مانگتے ہیں جب کہ ہم آئی ایم ایف سے بھی رقوم مانگ رہے ہیں، جہاں امریکا کا بہت اثر و رسوخ ہے۔ تو میرے خیال میں آئی ایم ایف سے کوئی پیکج ملنے کے بعد ہم امریکا کو نہ نہیں کہہ سکیں گے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی طرف سے امداد بھی مفت نہیں اور وہ بھی چاہے گا کہ اسلام آباد تہران کے خلاف ریاض کے ایجنڈے کا حصہ بنے۔‘‘
ڈاکٹر امان میمن کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے بھی ایرانی سعودی تنازعات میں ریاض کے قریب ہی رہا ہے، ’’کیا ہم نے اسلامی عسکری اتحاد کی کمان نہیں سنبھالی، جو سعودی مفادات کی نگرانی کر رہا ہے۔ تو اگر ہم اسلامی عسکری اتحاد کی فوج بنانے کے معاملے میں بھی اپنی غیر جانبداری برقرار نہیں رکھ سکے، تو آئندہ ایسا کیسے کر سکیں گے۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں ایران کا جو دورہ کیا تھا، اس کے بعد سے کئی مبصرین یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی خوشگوار ہو رہے ہیں۔ تاہم کئی سیاست دانوں کے خیال میں پاکستان اب بھی ایک مضبوط سعودی اتحادی ہے۔ معروف سیاست دان سینیڑ عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی غیرجانبداری کا سوچنا کوئی منطقی بات نہیں ہے، ’’ہم نے تو پہلے ہی پاکستان کو عرب شیخوں کے ہاتھوں میں گروی رکھا ہوا ہے۔ سعودی عرب تین ارب ڈالر کی امداد دے رہا ہے اور سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی بھی کر رہا ہے۔ تو یہ سب کچھ مفت اور بلاوجہ تو نہیں ہے۔‘‘
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ پاکستانی پارلیمان تو یہ کہہ چکی ہے کہ پاکستان کو غیر جانبدار رہنا چاہیے، ’’لیکن اصل فیصلہ تو اسٹیبلشمنٹ نے کرنا ہے۔ اگر ہم ایران کے خلاف جنگ کا حصہ بنے، تو اس کا مطلب ہمارے معاشرے کے لیے تباہی ہی تباہی ہو گا۔ اور جملہ آثار یہ بتاتے ہیں کہ ہم غیر جانبدار نہیں رہیں گے۔‘‘
پاکستان میں سعودی عرب کا گہرا اثر و رسوخ ایک حقیقت ہے۔ ملک کئی حوالوں سے خلیج کی اس قدامت پسند بادشاہت پر انحصار کرتا ہے۔ پاکستانی مزدوروں کی بہت بڑی تعداد وہاں کام کرتی ہے۔ سعودی عرب ادھار تیل پاکستان کو دیتا رہا ہے اور کئی مواقع پر اس نے اسلام آباد کی مالی مدد بھی کی ہے۔ لیکن سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ان تمام نوازشات کے باوجود اسلام آباد کو غیر جانبدار رہنا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما سید ظفر علی شاہ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے جانبداری کی، تو اس کے خلاف سخت مزاحمت ہو سکتی ہے، ’’پاکستان میں دو ہی فرقوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سنی اور شیعہ مسلمان۔ تو اگر پاکستان نے ایران کے خلاف جانے کی کوشش کی، جو کہ مجھے امید ہے کہ حکومت نہیں کرے گی، تو اس کے خلاف ہر طرف سے مزاحمت ہو گی، جو فوج، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی ہر سطح پر دیکھنے میں آئے گی۔‘‘