تحریر : سید انور محمود انیس مئی 2017 کو ایران میں مجموعی طور پر چار کروڑ اہل ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جس کے باعث ایرانی حکام کوپولنگ کے اوقات میں چار گھنٹے کا اضافہ بھی کرنا پڑا، ووٹروں کی شرکت کی شرح ستر فیصدرہی جو ایرانی عوام کی اپنے ملکی معاملات سے دلچسپی کا ایک سبب ہے۔ انیس مئی کو ایرانی عوام نے ایک مرتبہ پھر اپنے اعتدال پسند رہنما اور موجودہ صدر ڈاکٹرحسن روحانی کو دوسری مرتبہ کےلیے اپنا صدر چن لیا، حسن روحانی 2013 میں پہلی بار ایران کے صدر بنے تھے۔ وہ ایران کے نوجوانوں اور خاص طور پر خواتین کےلیے امید کی ایک کرن ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ شخصی آزادی اورمغرب سے مصالحت کی وکالت کی ہے۔ چار سال پہلے اعتدال پسند ایرانی صدر نے اقتدار میں آتے ہی مغرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مذاکراتی عمل شروع کیا تھا اور 19 مئی 2017 کوان کی اس پالیسی کو عوامی تائید بھی حاصل ہوگئی ہے۔ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنی انتخابی کامیابی کے بعداپنے پہلے خطاب میں کہا ہے کہ الیکشن میں ان کی دوبارہ جیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایران کے عوام نے انتہا پسندی کومسترد کر دیا ہے اور وہ بیرونی دنیا سے تعلقات بنانا چاہتے ہیں۔ اپنے خطاب میں انھوں نے مزیدکہا کہ ایرانی عوام نے دکھا دیا ہے کہ وہ دنیا سے بات چیت جاری رکھنے کے راستے پر گامزن رہنا چاہتے ہیں جو کہ انتہا پسندی اور تشدد سے دور ہے۔ اس بار الیکشن میں جن 70 فیصد ایرانیوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا انہوں نے 57 فیصدیعنی دو کروڑ تیس لاکھ ووٹ حسن روحانی کے حق میں ڈالے، جبکہ 38.5 فیصد یعنی ایک کروڑستاون لاکھ ووٹ ان کے مرکزی حریف ابراہیم رئیسی کے ڈبے میں ڈالے۔ایران کے صدارتی انتخاب میں حسن روحانی خارجہ پالیسی کے نعرے پر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اپنی خارجہ پالیسی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلیے صدر حسن روحانی نے چار سال سخت محنت کی ہے ، اس چار سال میں ایران میں جو بڑی تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ ایرانی کی عالمی سطح پر تنہائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس دوران میں حسن روحانی کی سب سے بڑی کامیابی مغربی ممالک کے ساتھ جوہری ڈیل تھی، لیکن نئے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ عرصہ قبل ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے کی بھی دھمکی دے رکھی ہے۔ نئے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اس وقت اپنے پہلے غیر ملکی دورئے پر ایران کے روایتی حریف سعودی عرب میں دو دن گذار کر اسرائیل پہنچ چکے ہیں۔ سعودی عرب میں وہ مسلسل ایران کے خلاف بولتے رہے۔ ریاض میں عرب اسلامک امریکن سربراہی اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں ایران پر شدیدتنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ حکومت جو دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دیتی ہے، مالی مدد کرتی ہے، وہ حکومت اس خطے میں عدم استحکام کے لیے زمہ دار ہے۔ لبنان سے لے کر عراق اور یمن تک ایران دہشتگردوں کو مالی مدد دیتا ہے، اسلحہ فراہم کرتا ہے اور دہشت گردوں، ملیشیا اور دوسرے شدت پسند گروہوں کی تربیت کرتا ہے جو خطے میں تباہی اور افراتفری پھیلاتے ہیں اور اسرائیل کی تباہی کے خواہاں ہیں اور امریکہ کے لیے موت کے نعرے لگاتے ہیں‘‘۔عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں ہی سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ایران دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے اور وہ دیگر ممالک کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے جب کہ ایران نے ہماری خاموشی کو کمزوری سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو دہشت گردی کا سامنا رہا ہے لیکن ہم نے دہشت گردوں کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی جب کہ داعش سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ کانفرنس کے ختم ہونے پر ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں ہونے والی عرب اسلامک امریکن کانفرنس صرف ایک شو تھا جس کی کوئی سیاسی یا عملی حیثیت نہیں ۔ ایران کے بغیر خطے میں استحکام ممکن نہیں ہے۔حسن روحانی نے کہا کہ ہم باہمی احترام اورمفاد کی بنیاد پر معاملات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں امریکی صدر اور سعودی شاہ کے خطابات سے یہ واضع ہوگیا ہے امریکہ ہر صورت میں اس خطے میں ایرانی زور توڑنا چاہتا ہے اور یہ ہی سعودی عرب کی ایک عرصے سے خواہش ہے۔اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایران کی مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی پالیسی کو بھی خطرہ ہے۔مشرق وسطیٰ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کے بیشتر ممالک میں خاندانی بادشاہت قائم ہے۔ سعودی عرب ،امارات ، عمان، بحرین ،کویت ،قطر اور اردن ایسے ممالک ہیں جو ایران سے اتنی دوری پر نہیں اور ان ممالک میں خاندانی بادشاہت قائم ہیں، 1979 سے قبل ایران میں بھی بادشاہت تھی جو انقلاب خمینی کی وجہ سے ختم ہوئی۔ جبکہ شام ، لبنان، عراق اور ترکی میں نام نہاد جمہورت موجود ہے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثر و رسوخ کے خلاف برسر پیکار ہے۔ اگرچہ ان دونوں ملکوں کے اختلافات کی نوعیت سیاسی ہے اوردونوں ممالک زیادہ سے زیادہ علاقے پر تسلط کا خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں ممالک اسلام کو اپنے اپنے مفاد میں بھرپور استمال کررہے ہیں۔ سعودی عرب کٹر وہابی عقائد کا پرچار کرتا ہے تو ایران انقلاب خمینی کے بعد سے اب تک سخت شیعہ عقائد کا حامی ہے اور شعیہ عقائد کا پرچار کرتا ہے۔ اس طرح ان دو مسلمان ملکوں کے تصادم کی وجہ سے پورے مشرق وسطیٰ اور متعدد مسلمان ملکوں میں فرقہ وارانہ اختلافات صرف عقیدہ تک محدود نہیں رہے بلکہ سماجی اور سیاسی رویوں کا حصہ بن چکے ہیں۔
مشرقِ وسطٰی کے حوالے سے جو خواب امریکہ نے شاہ ایران کی آنکھوں سے دیکھے تھے، 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب نے ان کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جو ایران خطے میں امریکہ کی آنکھ کا تارہ تھا، وہی اُسی آنکھ میں کانٹا بن کے چپنے لگا۔ نتیجتاً جس قدر یہ دو ممالک قریب تھے، اُس سے کئی گنا زیادہ ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔ تمام تر آپسی تعلقات منقطع ہوگئے۔ آپسی تعلقات کا دارومدار تو سفارتکاری پر منحصر ہوتا ہے۔ جبکہ 9 نومبر 1979 کو تہران یونیورسٹی کے انقلابی طلباء نے ایران میں امریکی سفارت خانے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ سفارتی لباس میں ملبوس امریکی خفیہ ایجنسی کے عملے کو مجرموں کی طرح گھسیٹ کر باہر نکالا۔ امریکہ اس زلت کو کیسے برداشت کرتا، وہ ایران کا ایک حقیقی دشمن بن گیا، یہاں تک کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرئے سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ 9 نومبر 1979 کے بعد امریکہ اور ایران کے آپسی تعلقات بحال ہونے کے بجائے ہر نئے دن کے ساتھ بگڑتے چلے گئے۔ اس دوران امریکہ نے ایران پر گوناگوں الزامات عائد کئے اور ان الزامات میں سے جوہری ہتھیار بنانے کے الزام پر سب سے زیادہ فوکس کیا گیا۔ اس وقت بھی امریکہ سعودی عرب اور اتحادیوں کے ساتھ ملکر ایران کو مستقل نقصان پہنچارہا ہے۔
موجود حالات سے سوائے تباہی کے کچھ نہیں ملے گا، نقصان امریکہ کا نہیں ایران اور سعودی عرب کے عوام کا ہوگا، لہذا دونوں ممالک کے حکمرانوں کے لیے یہ سوچنے کا مقام ہے۔کسی شخص نے ہنری کسنجر سے پوچھا کہ اگر کوئی ملک امریکہ کی مخالف کرتا ہے تو کیا ہوگا؟ ہنری کسنجر نے جواب میں کہا تھاکہ ’’ اگر آپ امریکا کے دشمن ہیں تو آپ خطرے میں ہیں لیکن اگرآپ اس کے دوست ہیں تو پھر آپ انتہائی خطرے میں ہیں‘‘۔