تہران (جیوڈیسک) پاکستان کی سرحد کے قریب مسلح افراد کے حملے میں سترہ بارڈر سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جبکہ ایران نے جواب میں 16 باغیوں کو پھانسی دے دی۔ امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ایرنا نیوز کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکام اب تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا حملہ آور منشیات کے سمگلر تھے یا حکومت مخالف مسلح گروپ تھے۔ ایرانی حکام کے مطابق یہ واقعہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب کو پاکستان کی سرحد سے متصل علاقے سراوآن میں پیش آیا۔ ایرانی حکام کے مطابق اس واقعے میں پانچ بارڈر سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ایرنا نیوز نے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ رہزن یا ایران مخالف باغی اس واقعے میں ملوث ہیں۔ سرکاری ذرائع ابلاغ نے ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے اٹارنی جنرل کے حوالے سے بتایا کہ سولہ باغیوں کو زاہدان کی جیل میں پھانسی دی گئی ہے۔ ایرنا نیوز نے اٹارنی جنرل محمد مرضی کے حوالے سے بتایا ہے کہ سرحدی محافظوں کی ہلاکت کے جواب میں حکومت مخالف گروہوں سے تعلق رکھنے والے سولہ باغیوں کو زاہدان کی جیل میں ہفتہ کی صبح پھانسی دے دی گئی ہے۔ ان باغیوں پر بارڈر سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کا الزام نہیں تھا لیکن اٹارنی جنرل کے مطابق باغیوں کا تعلق حکومت مخالف گروہوں سے تھا۔
ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ہے لیکن ماضی میں سنی شدت پسند تنظیم جنداللہ صوبہ سیستان بلوچستان میں اس نوعیت کے حملوں میں ملوث رہی ہے۔ جند اللہ سنہ دو ہزار دو میں قائم کی گئی تھی اور اس کا مقصد ایران کے جنوب مشرق علاقے میں بلوچی اقلیت کی مفلسی کی طرف توجہ دلانا تھا۔ افغانستان سے یورپ منشیات سمگل کرنے کے لیے ایران ایک اہم راستہ ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گزشتہ تیس سال کے دوران سمگلروں سے ہونے والے جھڑپوں میں چار ہزار پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔