تحریر : میر افسر امان جب اسلام کی کرنیں پھیلنے لگی تھیں تو ایک طرف روم اور دوسری طرف ایران میں مجوسیوں کی حکومت تھی۔ سعد بن وقاص صحابی رسولۖ نے جب دریائے دجلہ کے اِس پار اپنی فوجیں جمع کی تو دریا اپنی طغیانی پر تھا۔ طغیانی کے وقت دریا میں کشتیاں ڈالنا عقلمندی نہیں سمجھی جاتی۔ مگر کشتیاں تو دور کی بات ہے صحابی رسولۖ نے اپنی فوج کو گھوڑے دریائے دجلہ میں ڈالنے اور اور اُس پار مجوسیوں کی فوج پر حملہ کا حکم دیا تو دریا کی موجوں نے ہتھیا رڈال دیے۔ مجوسیوں نے اسلامی فوج کی اس بہادری پر تاریخی بات کی تھی۔ وہ یہ ہے”دیوآمند دیو آمند” اور بھاگ گئے۔ مسلمانوں نے تو روم اور ایران کی کافر حکومتوں سے حکومتیں چھینی تھیں مگر تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک فرقے نے دوسرے فرقے سے حکومت چھین کر اپنے مذہب کے مطابق حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ کچھ اسی ہی طرح کی ایران کی بھی تاریخ ہے۔ زیادہ دور کی بات نہیں۔
شاہ اسماعیل صفوی شعیہ کے١٤٩٩ء کے حملے تک ایران میں سنی حکمرانوں کی صدیوں تک حکومتیں قائم رہیں۔شاہ اسماعیل صفوی غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے۔ اپنی شجاعت سے ایران،عراق،شیروان اور شیراز اور دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ عثمانی شہزادے مراد کو اپنے ہاں پناہ دی اور عثمانی سلطان سلیم کو تخت سے اُتار کرشہزادے مراد کو تخت پر بٹھانے کی کوشش کی۔ جس پر ترکوںنے شاہ اسماعیل صفوی سے چالدران کے مقام١٥٤١ء میں خون ریز لڑائی ہوئی اور ترکوں نے سارے علاقے واپس لے لیے۔شاہ اسماعیل صفوی نے ایران میں شعیہ مذہب کی بنیاد رکھی تھی۔ ذبردستی لوگوں کو شعیہ بنایا گیا۔ کچھ مجبوری سے شعیہ بن گئے۔ وقت گزرتا گیا شہنشاہ رضاشاہ پہلوی کے خاندان نے ایران پر حکومت قائم کی۔ اپنے حکومت کو دوام بخشنے کے لیے دنیا کی طاقت ور حکومت امریکا کاآلہ کار بننا پسند کیا۔ اور ایشیا میں امریکا کاا یجنٹ مشہور ہوا۔ ایران میں مغربی تہذہب کا رواج عام کیا۔ شعیہ مذہب کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے اقتدار کو ٤٠٠٠ سال قدیم تہذیب سے جوڑنے کی کوشش کی۔ اس کے لیے جشن منائے گئے۔ دنیا بھر کے ہم خیال دوستوں کو ایران میںجمع کیا۔ مذہبی رہنمائوں نے شعیہ مذہب کی حفاظت کرتے ہوئے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی اس سوچ کے خلاف تحریک جاری رکھی۔ اس تحریک کے سربراہ خمینی تھے۔
Khomeini
خمینی نے فرانس میں بیٹھ کر شہنشاہ کے خلاف کامیابی سے تحریک جاری رکھی اور بلا آخر عوام کی طاقت سے مغربی تہذیب کے خلاف اسلامی انقلاب برپاہ کیا جو اب تک قائم ہے۔خمینی کے انقلاب کا نعرہ تھا لا شرکیہ لا غربیہ اسلامیہ اسلامیہ۔ ہر سال امریکا کے قومی جھنڈے کوپاسداران انقلاب پیروں میں روندتے ہوئے امریکا مردہ باد کے نعرے لگاتے تھے۔اس اسلامی انقلاب کی سنی دنیا نے بھی حمایت کی تھی ۔ مگر آہستہ آہستہ یہ اسلامی انقلاب کے بجائے شعیہ انقلاب بن گیا۔ یہیںسے اختلافات نے جنم لیا۔ ایران کی موجودہ شعیہ حکومت نے بڑی جدو جہد کے بعد امریکا سے پھر سے دوستی قائم کر لی ہے۔ صاحبو!امریکا کا صلیبی ہونے کی وجہ سے نہ شعیہ کا دوست ہے نہ سنیوں کا، اس کے اپنے مفادات ہیں۔
امریکا نے کل ہی بیان دیا ہے کہ ایران شعیہ ملیشیائوں کو ساری دنیا میں خطرناک اسلحہ سپلائی کر رہاہے۔امریکا ہی نے اسلحہ سے لدے تین ایرانی بحری جہاز پکڑے ہیں جو یمن کے باغی حوثیوں کو سپلائی کے لیے اسلحہ لے جارہے تھے۔ ایران شام میں کھل کر بشار کی مدد کر رہا ہے۔ بشار کا اقلیتی نصیریہ شعیہ فرقہ کا خاندان عرصہ ساٹھ سال سے سنی اکثریت پر حکومت کر رہا ہے۔ شام میںجنگ کے دوران ایران کے پاسداران انقلاب کے درجنوںکمانڈرز ہلاک ہو چکے ہیں۔عراق میں امریکا سے مل کر صدام حسین کی سنی اکثریتی حکومت کو ختم کیا گیا۔افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکا کی مدد کی جس کے عوض میںافغانستان میںامریکی پٹھو حکومت میں ایرانی حمایت یافتہ شمالی اتحاد کے شعیہ افراد کی اکثریت ہے۔
ایران نے اپنے مفادات کے لیے ایران سے باہر نکل کر سنی حکومتوں میں دخل اندازی شروع کی ہوئی ہے۔ایرانی پاسداران کے سابق کمانڈر اور تہران عسکری یونیورسٹی کے استاد کرنل احمد غلام پور نے کہا ہے ہماری جنگ صرف عراق تک محدود نہیں بلکہ خامنہ ای صاحب سپریم کمانڈر کے ڈاکٹرئین بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ باہر نکل کر دشمن پر حملہ کرنا ہی بہترین دفاع ہے ۔اس لیے ہمارے جنگ صرف عراق میں ہی نہیں بلکہ یہ جنگ ہم نے یمن،لبنان، شام افغانستان اور پاکستان میں منتقل کی ہے۔اس سے قبل ایک خامنہ ای کے ایک دفاعی مشیر نے پالیسی بیان میں کہا تھا کہ ہماری جنگ ترکوں سے ہے ہم اپنے علاقے واپس لے رہے ہیں عراق ہماراہے۔اس سے بھی پہلے حزب اللہ کے چیف کا بیان سامنے آیا تھاکہ ہم مکہ او مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اسی غرض کے لیے یمن کے اقلیتی حوثیوں باغیوں کو حزب اللہ نے تربیت اور اسلحہ فراہم کیا ہے۔کیا یہی وجہ ہے کہ ایران کی شہ پر حوثی باغیوںنے ہی چند دن قبل ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے روحانی مرکز اور اللہ کے گھر مکہ پر اسکڈ میزائل فائر کیا تھا۔ جسے پندرہ میل پہلے ہی عرب اتحاد کے دفاعی نظام نے تباہ کر دیا جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے۔
Yemen Rebels
حوثیوں کی اس ناپاک جرأت اس پر پوری دنیا کی لیڈرشپ نے سعودی حکومت سے اظہار یکجہتی کا اعلان کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو مسلمان صلیبیوں کی چالوں سے دور رہیں۔ آپس میں اتحاد اتفاق قائم کریں اور یہ طے کر لیں کہ جہاں جس کی اکثریت ہے اسے وہاں حکومت کرنے کی آزادی ہونی چاہیے دوسرا فرقہ اس میں مداخلت نہ کرے ۔ مگر کیا کیا مفادات کی جنگوں کا کہ مسلمان آپس میں ہی لڑ رہے ہیں۔جب مسلمانوں میں شعیہ سنی کی تفریق نہیں تھی تو مسلمانوں نے روم کی عیسائی اور ایران کی مجوسی حکومت پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ دنیا میں ایک ہزار سال تک کامیابی سے حکومت کی۔ جبکہ اس دور میںیہودو نصاراکی سازشوں نے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دیا ہے ۔ اے کاش! شعیہ اور سنی حکومتیں ایک دوسرے پرغلبہ حاصل کرنے کے بجائے اپنے مشترکا دشمن یہود و نصارا کو سمجھیں۔ اُن کو زیر کرنے کی تدبریں کریں جیسے وہ مسلمانوں کو زیر کرنے کی تدبریں کر رہے ہیں۔
شاید پھر وہی پرانی فتوحات کا دور واپس آ سکے۔ رہا یہ کہ شعیہ حق پر ہیں یا سنی حق پر ہیں اس کا فیصلہ آخرت پر چھوڑ دیں اللہ قیامت میں اس کا فیصلہ کر دے گا۔اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ ایران میں ڈھائی کروڑ سنیوں کے نمایندوں نے مجلس شوریٰ میں مطالبہ کیا کہ کم از کم ایک وزیر تو سنیوں میں سے لیا جائے تا کہ سنیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔کیا ہی اچھا ہو کہ ایران کے سپریم کمانڈر اپنے ڈاکٹرئین پر نظر ثانی کریں اور سنی حکومتوں کے خلاف اپنا جارحانہ رویہ تبدیل کریں۔ ایران سے باہر نکل کر سنی حکومتوں پر قبضے کا خیال دل سے نکال دے تاکہ بھائی چارے کی فضا قائم ہو اورایران ،ایران تک ہی رہے تو بہتر ہے۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان