ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے طاقتور ریاستی حلقے انٹرنیٹ پر شکنجہ کسنے کے لیے ایک نیا قانون لانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو ایران وہ پہلا ملک ہوگا، جہاں انٹرنیٹ فوج کے حوالے کر دیا جائے گا۔
نصراللہ پژمانفر مشہد سے ایران کے رکن پارلیمان ہیں۔ وہ ایک تجربہ کار پارلیمینٹیرین ہیں اور ملک کے قدامت پسند شیعہ علما اور فوج کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔
اس سال جولائی میں انہیں پارلیمان کے ”آرٹیکل 90 کمیشن‘‘ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ اس کمیشن کا کام حکومت، منتخب ایوان اور عدلیہ کی کارکردگی سے متعلق شکایات کا جائزہ لینا ہے۔
لیکن ان دنوں نصراللہ پژمانفر کی سب سے بڑی تشویش ‘بے لگام‘ سوشل میڈیا ہے۔ ان کے خیال میں انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے غلط اور بے دریغ استعمال سے ایران اور اس کے لوگوں کو خطرہ ہے۔ وہ ‘جھوٹی خبروں‘ اور ریاست مخالف تنقید کا سدِ باب چاہتے ہیں۔
ایران میں سرکاری طور پر تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘بلاک‘ ہیں، تاہم قانونی طور ابھی تک ان پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایران کی وزارت انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے مطابق ملک کے آٹھ کروڑ آبادی میں نصف سے زائد لوگ کسی نہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔
ایک ایسے ملک میں جہاں آزادی رائے پر کڑی قدغنیں ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں کی شکایات ہیں، لوگ سوشل میڈیا پر کھل کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔
حکومتی اور انٹیلی جنس اہلکار سوشل میڈیا پر ہونے والے بحث مباحثوں پر قریبی نگاہ رکھتے ہیں۔ اس سے انہیں حکومت مخالف سیاسی درجہ حرارت ناپنے اور لوگوں کا موڈ پرکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
لیکن نصراللہ پژمانفر کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کو کافی ڈھیل دی جا چکی ہے اور وقت آ گیا ہے کہ اب فوج ایران میں انٹرنیٹ کا کنٹرول سنبھال لے۔
ان کے خیال میں ”باقی دنیا کی طرح، یہاں بھی شہریوں کے تحفظ کے لیے‘‘ انٹرنیٹ کو قابو کرنا ضروری ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پارلیمان میں ایک نیا قانون تجویز کیا ہے، جس کے تحت لوگوں کے لیے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر انٹرنیٹ استعمال کرنا ممکن نہیں رہے گا اور اس طرح فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سائبر دنیا میں شہریوں پر پکڑ اور مضبوط ہو جائے گی۔
نیویارک میں مقیم ڈیجیٹل حقوق اور سائبر سکیورٹی کے امور پر کام کرنے والے محقق عامر راشدی کے مطابق اطلاعات ہیں کہ اس کام کے لیے تہران حکومت روس اور چین سے مدد لے رہی ہے، ”ایران کے سکیورٹی حکام 20 سال سے انٹرنیٹ پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ نیا قانون منظور ہو جاتا ہے تو ایران وہ پہلا ملک ہو گا، جہاں انٹرنیٹ فوج کنٹرول کرے گی۔‘‘
صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ محمد جواد ظریف ٹویٹر استعمال کرنے والی سینئر حکومتی شخصیات میں شامل ہیں۔ حتیٰ کہ ایران کی طاقتور ترین شخصیت آیت اللہ علی خامنہ ای بھی اپنے سرکاری اکاؤنٹ سے چار زبانوں، انگریزی، عربی، فرانسیسی اور فارسی میں ٹویٹ کرتے ہیں۔
اسی طرح ایران کے صحافی، سیاسی و سماجی کارکن بھی ٹویٹر کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالیوں، اغوا، گرفتاریوں اور تشدد کے واقعات اجاگر کیے جاتے ہیں اور ایسی خبریں بھی منظر عام پر آ جاتی ہیں، جو حکام دبانا چاہ رہے ہوں۔
ایران میں بلاک ہونے کے باوجود ٹویٹر کا استعمال وی پی این ٹیکنالوجی کے ذریعے عام ہے۔ اور جب کبھی حکومت کی مبینہ زیادتیوں کے خلاف لوگوں کا غم و غصہ زیادہ نکلتا ہے، تو پھر عدلیہ کے ججز کو بھی ان واقعات کا نوٹس لینا پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹویٹر کی شاید یہی طاقت ہے، جو ریاستی اداروں کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔