دبئی (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی فارن پالیسی میگزین نے دعویٰ کیا ہے کہ افریقی ملک صومالیہ میں سرگرم ‘الشباب’ نامی ایک عسکری گروپ اور ایران کے درمیان خفیہ تعلقات چل رہے ہیں۔ میگزین کے سیاسی تجزیے میں صومالیہ میں شدت پسند گروہوں کے ساتھ تہران کے تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الشباب اور ایران کے درمیان خفیہ تعلقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صومالیہ خطے میں تخریبی کردار کے لیے ایران کا ایک نیا میدان بن گیا ہے۔
صومالی حکومت کے اعلی عہدیداروں کے مطابق افریقی خطے میں تہران کے مفادات میں شدت پسند “الشباب” گروپ کے ساتھ خفیہ تعلقات قائم کرنا بھی شامل ہے۔ ایران کے توسیع پسندانہ مفادات صرف صومالیہ تک نہیں بلکہ ایران عرب اور افریقی ممالک میں اپنے پروردہ گروہوں کی مدد کرکے اپنے اثرو رسوخ میں اضافے کے لیے سرگرم ہے۔ ایران دوسرے ممالک کی انتہا پسند تنظیموں کا استعمال کرتا ہے۔ ان میں یمن کے حوثی کینیا ، تنزانیہ ، جنوبی سوڈان ، موزمبیق اور وسطی افریقی جمہوریہ جیسے دوسرے ممالک میں براہ راست ہتھیار فراہم کے جاتے ہیں۔
ایرانی حمایت یافتہ گروپ نے سنہ 2019ء اور رواں سال صومالیہ اور شمالی کینیا میں امریکی فوجی اڈوں کے علاوہ مقدیشو میں یورپی یونین کے فوجی قافلے پر بھی حملہ کیا۔ ان حملوں میں تین امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
“الشباب” تحریک نے شمالی کینیا میں “سمبا” کیمپ پر حملہ کیا جس میں 3امریکی ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ ان دنوں میں کیا جب عراق میںامریکی فوج کی ایک کارروائی میں ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کیا گیا تھا۔ تہران امریکی پابندیوں کو غیرموثر بنانے کے لیے صومالیہ میں ایرانی تیل اسمگل کرنے کے لیے اپنی طاقت کے نقات کو استعمال کر رہا ہے۔ تا کہ اس کے بعد پورے افریقہ میں سستا تیل فروخت کرنے میں کامیاب ہو سکے۔
لیکن تہران نے شدت پسندوں کے نیٹ ورک کو اس کے ساتھ کام کرنے کے لئے راغب کرنے کا انتظام کیسے کیا؟ پیسے کے لالچ میں صومالیہ کو ایران نے خطے میں اپنے نیٹ ورک کو بڑھانے کی حکمت عملی کے تحت بھرتی کیا۔ صومالی عہدیداروں کے بارے میں “فارن پالیسی” کی معلومات کے مطابق یہ ایرانی کاروائیاں ایرانی پاسداران انقلاب کے زیرقیادت القدس فورس اور صومالیہ میں شدت پسند گروہوں اور مجرمانہ نیٹ ورکس کے ذریعے انجام دی گئیں۔