تہران (جیوڈیسک) ایرانی حکام نے کل منگل کو تہران کے جنوب مغربی شہر کرج کے مقام پر رجائی شہر میں قید اہل سنت مسلک کے 21 مسلمانوں کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ موت کے سزا یافتہ 17 سنی قیدیوں کو کسی بھی وقت پھانسی دیے جانے کا امکان ہے۔
ایران کی قومی مزاحمتی کونسل کی خارجہ امور کمیٹی کے رکن موسیٰ افشار نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایران کے اندر سے یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ حکام نے منگل کو علی الصباح اکیس کارکنوں کو پھانسی دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق اجتماعی طور پر قتل کئے جانے والوں میں نوجوان عالم دین شہرام احمدی بھی شامل ہیں۔
پھانسی پانے والے شہریوں کے عزیز واقارب کا کہنا تھا کہ حکام کی طرف سے انہیں سوموار اور منگل کی درمیانی شب جیل میں حاضر ہونے کی ہدایت کی گئی تھی مگر جب وہ جیل پہنچے تو انہیں بتایا کہ ان کے رشتہ داروں کو پھانسی دے دی گئی ہے اور وہ ڈی این اے کی مدد سے اپنے اقارب کی شناخت کرکے ان کی میتیں اپنے ساتھ لے جائیں۔
پھانسی پانے والے 18 سنی کارکنوں کی شناخت احمد نصری، ادریس نعمی، آرش شریفی، پوریا محمدی، عبدالرحمان سنکانی، نصراللہ مرادی، بہروز شاہ نظری، بہمن رحیمی، عالم برماشتی، طالب ملکی، شہرام احمدی، سید شاھو ابراہیمی، تیمور نادری زادہ، فرزاد شاہ نظری، کاوہ ویسی، کاوہ شریفی، فرید ناصری اور فرزاھنرجو کے ناموں سے کی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو پھانسی دیے جانے سے قبل رجائی شہر جیل کے ارد گرد سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے اور جیل کو تمام اطراف سے پولیس نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اس دوران پھانسی کے دیگر 17 ملزمان کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ انہیں بھی کسی وقت پھانسی دے دی جائے گی۔
قبل ازیں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پھانسی کے سزا یافتہ سنی مسلمانوں کی ایک فہرست جاری کی تھی جس میں کاوہ ویسی، بہرو شانظری، طالب ملکی، شہرام احمدی، کاوہ شریفی، آرش شریفی، وریا قادری فرد، کیوان مومنی فرد، برزان نصراللہ زادہ، عالم برماشتی، بویا محمدی، احمد نصیری، ادریس نعمتی، فرزاد ہنرجو، شاہو ابراہیمی، محمد یاور رحیمی، بہمن رحیمی، مختار رحیمی، محمد غریبی، فرشید ناصری، محمد کیوان کریمی، امجد صالحی، اومید بیوند، علی مجاھدی، حکمت شریفی، عمر عبداللھی، اومید محمودی، قاسم آبستہ، داؤد عبداللھی، کامران شیخہ، خسرو بشارت، ایوب کریمی، انور خضری، فرھاد سلیمی، عبدالرحمان سنکانی، جمال موسیٰ اور فرزاد شاہ نظری شامل ہیں۔
ایرانی انٹیلی جنس اداروں نے ان سنی مسلمانوں کو سنہ 2009ء اور 2011ء کے عرصے کے دوران کردستان اور ملک کے دوسرے علاقوں سے حراست میں لیا تھا۔ پھانسی کی سزا پانے والوں میں علماء، دینی مدارس کے طلباء اور سماجی کارکن شامل ہیں۔ ایرانی حکام نے ان پر ملک کے خلاف سازش، سلفی تنظیموں کے ساتھ تعلقات، فساد فی الارض، اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ اور دیگر الزامات کے تحت مقدمات چلائے تھے۔