ایران (جیوڈیسک) داعش تنظیم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایران نواز ملیشیاؤں کی جانب سے بھی تہران کے آشیرباد سے عراقی بچوں کے بھرتی کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس بھرتی کا مقصد شام میں بشار الاسد کی ملیشیاؤں کی معاونت ہے۔
انسانی حقوق کی متعدد رپورٹوں ، سرگرم کارکنان اور یہاں تک کہ عراقی صوبے ذی قار میں پاپولر موبیلائزیشن ملیشیاؤں کے گروپوں نے بھی بعض ایران نواز مسلح گروپوں کی طرف سے شام میں لڑائی کے لیے نا اہل بچوں کی بھرتی کی پر زور مذمت کی ہے.. ساتھ ہی عراقی حکومت سے مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ اس گومگو صورت حال پر روک لگا کر ان عناصر کی کڑی نگرانی کی جائے جو ان بچوں کو بھرتی کر کے بیرون ملک منتقل کر رہی ہیں۔
پرکشش معاوضے اور ایرانی پاسپورٹ :ذرائع کے مطابق بھرتی کیے جانے والے بچوں کے گھر والوں کو پرکشش معاوضے کی ادائیگی کے بعد ان بچوں ایرانی پاسپورٹ فراہم کر کے ایران کے راستے شام منتقل کر دیا جاتا ہے۔ بھرتی کیے جانے والے بچوں کی تعداد کا اندازہ تقریبا چار ہزار لگایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں 18 برس سے کم عمر لڑکوں کو کشش دلائی جاتی ہے اور کبھی کبھی اس معاملے کا ان کے گھر والوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ بالخصوص ذی قار اور اشرف کے دو عسکری کیمپوں میں جہاں سے شام اور عراق میں محاذوں پر فرنٹ لائن دستوں کے لیے کمک فراہم کی جاتی ہے۔
ہر ماہ مختلف محاذوں سے بے جان لاشوں کی صورت میں واپس لائے جانے والے بچوں کی تعداد 20 سے 100 کے درمیان ہے۔