ایران نے طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات میں ثالثی کی پیشکش کر دی

Jawad Zarif

Jawad Zarif

تہران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران نے طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات میں ثالثی اور تعاون فراہم کرنے کی پیشکش کردی ہے۔

ایرانی خبر رساں ادارے کے مطابق جواد ظریف نے تہران میں طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ ملّا غنی برادر کی قیادت میں آنے والے وفد کا خیر مقدم کیا۔اس موقعے پر ایران کی جانب سے قطر میں امریکا کے ساتھ شروع ہونے والے امن مذاکرات میں تعطل آنے کے بعد افغانستان میں قیام امن کے لیے ثالثی کی پیش کش کی گئی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ہم افغانستان میں بسنے والے تمام نسلی گروہوں اور مکاتب فکر پر مشتمل حکومت سازی کی بھرپور حمایت کریں گے۔ ایرانی خبر رساں ادارے کے مطابق جواد ظریف نے ملا غنی برادر سے کہا کہ افغانستان میں جاری تنازعات کے لیے امریکا ’’اچھا ثالث‘‘ نہیں ہے۔
اپنے ایک ٹوئٹ میں طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے لکھا کہ ایرانی حکام سے ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی جس میں افغانستان کے موجودہ حالات، بین الافغان مذاکرات، دوحہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد اور افغانستان سمیت خطے کے امن سے متعلق اہم امور پر گفتگو ہوئی۔

واضح رہے کہ صدر بائیڈن نے منصب سنبھالنے کے بعد طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر نظر ثانی کا عندیہ دیا ہے اور اس سے قبل امریکا میں جاری انتخابات کی وجہ سے افغان امن مذاکرات میں بھی تعطل آگیا تھا۔ اس صورت حال میں ایران کی جانب سے طالبان کو تعاون کی پیش کش کرنا ایک غیر روایتی اقدام ہے۔

اگرچہ اس سے قبل واشنگٹن کی جانب سے ایران پر طالبان کی خفیہ مدد کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے تاہم دونوں کے تعلقات ہمیشہ پیچیدہ رہے ہیں اور عام طور پر انہیں حریف ہی تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے آغاز کے موقعے پر ایران نے اس حوالے سے محتاط رویہ اختیار کیا تھا۔

افغان حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کا آغاز رواں ماہ ہوا تھا مگر سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ غیر ملکی خبررساں ادارے رائٹرز کی ایک اور رپورٹ کے مطابق نیٹو کے بعض اہلکار مئی 2021 تک افغانستان ہی میں رہیں گے کیوں کہ امریکا کے مغربی اتحادیوں کا مؤقف ہے کہ ابھی افغانستان سے مکمل انخلا کے لیے حالات موزوں نہیں ہیں۔

نیٹو کی جانب سے پہلے ہی ٹرمپ کی افغان پالیسی سے متعلق پس و پیش کا مظاہرہ کیا جارہا تھا تاہم بائیڈن کی جانب سے طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر نظر ثانی کے اشارے نے افغان امن عمل کو ایک بار پھر بے یقینی کا شکار کردیا ہے جس میں ایران کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش ایک قابل غور اقدام ہے۔