اگلے روز ہم نے مشہد سے ایران کے دارالخلافہ تہران سے ہوتے ہوئے ‘قم ‘ شہر جانا تھا ۔ مشہد سے ایران بذریعہ ریل تہران کا سفر تقریبا آٹھ گھنٹے کا ہے۔ ہم رات آٹھ بجے مشہد ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ نشستوں کے ریزر ویشن کا انتظام پہلے ہی ہو چکا تھا بیس منٹ پہلے ریل گاڑی کے کیبن میں قدم رکھا تو بڑی خوشگوار حیرانگی ہوئی۔ایک کیبن میں چار مسا فروں کی گنجائش تھی اور ہر مسافر کے لئے الگ الگ ٹرے میں پھل،بسکٹ اور اسنیک وغیرہ پلاسٹک شیٹ سے ملفوف تھے، اوپر ریک میں بیگ پڑے نظر آئے جس میں رات سونے کے لئے کمبل اور تکیے بھی موجود تھے۔دونوں اطراف میں ایل ای ڈیز بھی لگے ہو ئے تھے ،جس میں مسافر حضرات اپنی پسند کی فلم، ڈرامے ،خبریں یا نقشہ وغیرہ دیکھ سکتے تھے۔ ٹھیک نو بجے ریل گاڑی نے انگڑائی لی اور ہم نے مشہد مقدس کو خیرباد کہتے ہو ئے تہران کی راہ لی۔ ایران میں ریلوے لائن کو راہِ آہن کہتے ہیں۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ریلوے کا عملہ جوس اور کولڈ ڈرنک لے آیا۔
ہم نے مشہد کے بارے گفتگو شروع کی تو ہر ایک کا یہی خیال تھا کہ مشہد میں آستانہ قدس رضوی نہ صرف ایران بلکہ دنیا میں مسلمانوں کے عظیم الشان یادگاروں میں شمار کئے جانے کے لائق ہے۔ایرانی تعمیر کا بے مثل شاہکار ہے، اس کے عالی شان دروازے،سرامیکی کام سے مرصع وسیع رقبہ میں پھیلی ہوئی عمارتوں کا سلسلہ، سونے کے گنبد،آراستہ اور روشنی سے منّور دالان،رنگا رنگ نقش و نگار،زائرین و معتقدین کا ہجوم،تسبیح و عبادت میں مصروف،عقیدت سے سرشاراور اپنی سعادت پر اشکبار، خود رفتگی اور جذبات کا ایسا اظہار کم ہی جگہوں پر مِلتا ہے۔ایرانی دو شیزائوں کا حجاب پہنے، چھریرے اور سرو قد بدنوں کو کالی چادروں اور برقعوں میں زیارتوں کا شوقِ دیدار ہمارے لئے ناقابلِ فراموش تھا، ہم محوِ گفتگو تھے کہ ریلوے کا عملہ ہمارے لئے ہاتھوں میں کھانے کے ٹرے پکڑے حاضر ہوئے ، سو گفتگو کا سلسلہ بند اور طعام کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
تھوڑی دیر مزید چلنے کے بعد ہم ریلوے کی طرف سے رکھے گئے بیگ سے کمبل اور تکیہ نکال کر ، مشہد کی حسین خیالوں کو دماغوں میں بساتے ہو ئے لمبی تان لے کر سو گئے۔صبح پانچ بجے ایک ساتھی نے کہا، اٹھو اٹھو، تہران آگیا ۔ جلدی جلدی سامان سنبھالا اور اسٹیشن سے باہر کی راہ لی۔ باہر اسٹیشن پر پروٹوکول آفیسر بمعہ گاڑی پہلے سے ہی چشم براہ تھا،اس نے ہمیں خوش آمدید کہہ کر گاڑی میں بٹھایا ۔یہاں سے ہم نے ایران کے شہر ”قم ” جانا تھا ۔قم جاتے ہو ئے رہبرِ انقلاب امام خمینی کا مزار بھی ہے، ہم تقریبا ایک گھنٹہ کے مسافت کے بعد علی الصبح بانی انقلاب اسلامی امام خمینی (وفات جون 1989) کے مقبرہ پہنچے۔امام خمینی کا مقبرہ ایک بڑے وسیع رقبہ پر شاندار عمارت میں بہشتِ زہرہ نامی قبرستان کے احاطہ میں قائم ہے۔یہ مقبرہ ایران میں عقیدت کے ایک نئے مرکز کی جگہ بن گئی ہے۔
ہم نے دیکھا کہ زائرین کی ایک بڑی تعداد متصل دلان میں شب گزار کے بعد عبادت میں مشغول تھے، واضح رہے کہ ایران کا اسلامی انقلاب تاریخِ عالم کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے ایک ایسا ملک جو کبھی مکمل طور پر امریکہ کے زیرِ اثر تھا، جس کے شہنشہاہ کو بے پناہ فوجی طاقت اور تحفظات حاصل تھے اس طاقت کے مقابلہ پر پوری قوم کا بِلا خوف و خطر ایک سیسہ پگھلائی ہو ئی دیوار بن کر کھڑا ہونا کو ئی معمولی واقعہ نہیں ہے دنیا کی بہت ساری تحریکیں اس وجہ سے ناکام ہو گئیں کہ انہیں امام خمینی جیسا راہنما نصیب نہیں ہوا انہوں نے دنیا کی بڑی طاقتوں کی سوچی سمجھی اور بڑے پیمانے پر رچی ہر سازش کو ناکام بنایا اور نہ صرف دینی بلکہ فوجی، سیاسی اورمعاشی لحاظ سے ملک کو رفعت و بلندی عطا کی۔
انہی کے مزار پر ہم نے نمازِ فجر ادا کی اور پھر شہرِ قم کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریبا گیارہ بجے قم پہنچے۔ایک شاندار ہوٹل میں پڑائو ڈالا۔طے ہوا کہ کچھ دیر آرام کرنے اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد فاطمہ خواہرِ امام علی رضا کے مزار پر حاضری دی جائے۔بہ مقصد ایں دو بجے ہم مذکورہ مزارپہنچے۔یہ مزار آرائش و زیبائش، رفعت و شو کت میں اپنی مثال آپ ہے۔خوبصورت بیل بوٹوں سے مزّین اس کے نقش و نگار کا جواب نہیں ہے۔
ایرانی نقاشی اور اور سرامک کاری کا اعلیٰ نمونہ،قندیلیں اور مختلف النوع لائیٹس آویزاں ہیں۔سینکڑوں عقیدت مندوں کا ہر وقت مجمع رہتا ہے، زائرین میں خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی،جو نہایت عقیدت سے مراسمِ زیارت ادا کر رہی تھیں۔زیارت کرنے کے بعد ہم وہاں سے متصل بازار گئے اور کچھ سامان خرید کر واپس ہوٹل روانہ ہو گئے، جہاں سے شب گزاری کے بعدہم نے اگلے دن تہران جانا تھا۔