پاناما(جیوڈیسک) پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے ملنے والی خفیہ دستاویزات کے مطابق اس کے گاہکوں میں بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں آنے والے بھی شامل تھے۔ دستاویزات کے مطابق موساک فونسیکا کے گاہکوں میں 33 شخصیات یا کمپنیاں بھی شامل ہیں جن پر امریکی محکمۂ خزانہ کی پابندیاں تھیں۔ان گاہکوں میں ایران، زمبابوے اور شمالی کوریا میں کام کرنے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
* ’نواز شریف کے بچوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا‘ * پاناما ٹیکس لِیکس پر ردِ عمل * پاناما پیپرز کیا ہیں؟
ایک کمپنی کا تعلق شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام سے تھا۔ لا فرم موساک فونسیکا سے افشا ہونے والی دستاویزات کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ خفیہ دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر کے چوٹی کے امیر اور طاقتور افراد اپنی دولت کیسے چھپاتے ہیں۔ کس طرح اس کے گاہکوں نے کیسے منی لانڈرنگ کی، پابندیوں سے بچے اور ٹیکس چوری کی۔ چند کاروبار کا اندراج بین الاقوامی کمپنیوں عائد ہونے سے پہلے ہوا لیکن کئی کیسوں میں موساک فونسیکا اس وقت بھی ان کو خدمات فراہم کرتی رہی جب وہ بلیک لسٹ ہو چکے تھے۔ ڈی ایس ٹی مالیاتی کمپنی 2006 میں شروع ہوئی اور اس کا مالک اور ڈائریکٹرز شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ میں مقیم تھے۔
اس کے بعد امریکی نے اس کمپنی پر شمالی کوریا کی حکومت کے لیے مالی وسائل جمع کرنے اور جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں مدد کرنے کے الزام میں پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ایک اور کیس میں شامی صدر بشارالاسد کے کزن رامی مخلوف کا نام بھی سامنے آیا ہے اور اطلاعات کے مطابق ان کے اثاثوں کی مالیت پانچ ارب ڈالر کے قریب ہے۔ سال 2008 میں امریکی محکمۂ خزانہ نے رامی مخلوف پر شام کے عدالتی نظام پر اثر انداز ہونے اور شامی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کو اپنی کاروباری حریفوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال کرنے پر پابندیاں عائد کر دی تھی۔ موساک فونسیکا رامی مخلوف پر پابندیاں عائد ہونے کے بعد بھی ڈریکس ٹیکنالوجیز سمیت ان کی چھ کمپنیوں کی نمائندگی کرتی رہی ہے۔
دستاویزات کے مطابق برطانوی بینک ’ایچ ایس بی سی‘ کی سوئس پرانچ فرم کو مالیاتی سہولیات فراہم کرتی رہی۔ شامی صدر بشارالاسد کے کزن کو بھی خدمات فراہم کی گئی پابندیوں کے دو برس کے بعد ایچ ایس بی سی نے موساک فونسیکا کو لکھا ہے کہ ان کے خیال میں ڈریکس ٹیکنالوجیز ایک اچھی ساکھ کی کمپنی ہے۔ اس کے بعدموساک فونسیکا کی جانب سے ایچ ایس بی سی میں ڈریکس ٹیکنالوجیز کے معاملات دیکھنے والے عملے کو ای میل بھیجی گئی جس کے مطابق وہ رامی مخلوف کے بارے میں جانتے تھے۔
17 فروری 2011 میں بھیجی گئی ای میل کے مطابق’ ہم نے ایچ ایس بی سی سے رابطہ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ رامی شامی صدر بشارالاسد کے کزن ہیں۔‘ نہ صرف ایچ ایس بی سی کی جنیوا میں برانچ بلکہ اس لندن میں مرکزی دفتر کو معلوم تھا کہ رامی کون ہیں اور انھوں نے تصدیق کی تھی کہ وہ ان کے ساتھ کام کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ موساک فونسیکا کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ’ہر ممکن احتیاط سے کام کرتی ہے اور اگر اس کی خدمات کا غلط استعمال ہوا ہے تو اسے اس پر افسوس ہے۔‘موساک فونسیکا کے مطابق ہم نے کسی ایسی شخصیت کے ہاتھوں یہ جانتے ہوئے اپنی کمپنیوں کو استعمال نہیں ہونے دیا کہ ان کے شمالی کوریا یا شام کے ساتھ تعلقات ہیں۔