ویانا (اصل میڈیا ڈیسک) ایران نے اقوام متحدہ کے تحت جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کو مطلع کیا ہے کہ وہ یورینیم کو 20 فی صد تک افزودہ کرنا چاہتاہے۔
ایران جولائی 2015ء میں چھے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری سمجھوتا طے کرتے وقت 20 فی صد تک یورینیم کو افزودہ کررہا تھا لیکن اس وقت وہ 4۰5 فی صد تک یورینیم کوافزودہ کررہا ہے۔
آئی اے ای اے میں متعیّن روسی سفیر میخائل علینوف نے جمعہ کو ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل (رافال گراسی) نے بورڈ آف گورنرز کوایران کے ارادے کے بارے میں آگاہ کردیا ہے کہ وہ یورینیم کو 20 فی صد تک افزودہ کرنا چاہتا ہے۔
ویانا سے تعلق رکھنے والے ایک سفارت کار نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ آئی اے ای اے کے رکن ممالک میں اس ضمن میں ایک رپورٹ تقسیم کی گئی ہے لیکن انھوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی ہے۔
2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کے تحت ایران یورینیم کو صرف 3۰67 فی صد تک افزودہ کرسکتا ہے۔یہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے درکار90 فی صد افزودہ یورینیم سے کہیں کم سطح کی ہے۔
ایران نے دسمبر کے اوائل میں قانون سازی کے ذریعے یورینیم کو افزودہ کرنے کے لیے اضافی اور جدیدسینٹری فیوجز مشینیں نصب کرنے کا اعلان کیا تھا۔اس کے نتیجے میں اس کے جوہری پروگرام کو وسعت دی جاسکے گی۔
یورپی یونین کے رکن تینوں ممالک برطانیہ ، جرمنی اور فرانس نے ایران کی یورینیم کو افزودہ کرنے کی حالیہ سرگرمیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ ’’اگر ایران سفارت کاری کو موقع دینے میں سنجیدہ ہے تو اس کو ان اقدامات پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
آئی اے ای اے نے اپنی ایک سابقہ رپورٹ میں کہاتھا کہ ایران نطنز میں واقع اپنی زیر زمین جوہری تنصیب میں جدید آئی آر 2 ایم سینٹری فیوجز مشینوں کے تین مزید کلسٹر نصب کرنا چاہتا ہے۔
ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتے کے تحت صرف آئی آر۔1 سینٹری فیوجز کو نطنز میں نصب کرسکتا ہے اور ان ہی کے ذریعے یورینیم کو افزودہ کرسکتا ہے۔یہ مشینیں سست رفتاری سے یورینیم کو مصفا اور افزودہ کرتی ہیں۔
مذکورہ تینوں مغربی طاقتوں نے کہا تھاکہ ’’ایران کی جانب سے آئی اے ای اے کو نطنز میں واقع ایندھن کو افزودہ کرنے کے پلانٹ میں جدید سینٹری فیوجز کی تنصیب 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کی شرائط کے منافی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ ایران نے مئی 2019ء میں جوہری سمجھوتے کی بعض شرائط پر عمل درآمد نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس نے یہ فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر دستبرداری کے فیصلے سے ایک سال کے بعد کیا تھا۔
امریکی صدر نے مئی 2018ء میں اس جوہری سمجھوتے کو خیرباد کہہ دیا تھا اور اسی سال ایران کے خلاف دوبارہ اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں جس کے نتیجے میں ایران کی معیشت زبوں حال ہوچکی ہے اور ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ایران نے امریکا کی کڑی پابندیوں کے ردعمل میں جوہری سمجھوتے کی شرائط کی خلاف ورزیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اور یورینیم کو اعلیٰ سطح پر افزودہ کررہا ہے۔