پاکستان کو ایک با ر پھر 79 جیسی صورت حال درپیش ہے، جہاں ملکی سلامتی کے لئے دانش مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ایران، امریکا کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے، مشرق وسطیٰ کا امن ہی نہیں بلکہ دنیا کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ امریکا اور ایران کے درمیان 2015میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے صدر ٹرمپ کی2018کو یکطرفہ دستبرداری کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسی سرد جنگ کا آغاز ہوا، جو ماہر جنگی پالیسی کے حامل ایرانی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے سے، نفسیاتی تمام حدود کو پار کر چکا ہے۔ امریکا کی جانب سے اقتصادی پابندیوں، حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیئے جانے،امریکی بحری بیڑے کی خلیج فارس میں موجودگی اور ایران کی جانب سے ردعمل کے طور پر یورینیم افزدوگی کی بحالی و اضافے،آبنائے ہرمز میں آئل ٹینکرز جہازوں کو نقصان پہنچانے و کئی جہاز تحویل میں لئے جانے اور حوثی باغیوں کے پشت پناہی پر اس امکان کا ادراک کیا جاچکا تھا کہ جس طرح دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے، وہ خطے میں کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرانے،سعودی آئل تنصیبات پر حملے سمیت داخلی امن و امان کی پیچیدہ صورتحال، عراق میں احتجاج و پُر تشدد مظاہروں میں قونصل خانوں کو جلائے جانے اور پھر امریکا کا ایران نواز ملیشیا پر حملہ اور ردعمل میں بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے پر حملے کے بعد جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت جیسے واقعے پر ایران کا جوابی سخت ردعمل دینے کا اعلان،تشویش ناک صورتحال کی عکاسی کررہا ہے۔امریکا، جو پہلے ہی ایران پر حملے کے لئے آخری لمحات میں فیصلہ واپسی کے بعد شاید اس بار ایران فوجی تنصیبات کو اسرائیل کے ساتھ مل کرنشانہ بنانے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔ایران پر امریکی حملہ کا فیصلہ ایک طویل و خطرناک جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے کیونکہ ایران کے قریب ترین حلیف اتحادی روس و ترکی بھی جنگ میں ایران کی مدد کرنے سے خود کو نہ روک پائیں اور اس کے ساتھ ہی پاکستان پر عرب ممالک سمیت امریکا کا ممکنہ دباؤ بہت بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
پاکستان واضح طور پر پالیسی بیا ن دے چکا ہے کہ وہ غیر جانبدار رہے گا، لیکن اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ شاید پاکستان کو دو بڑے بلاک میں سے ایک بلاک کو منتخب کرنا ہوگا۔ ایران پر اگر امریکی و اسرائیلی حملہ ہوا تو پاکستان کی سرحدوں پر محفوظ مقامات کی تلاش میں ایک بہت بڑا انسانی ریلا بھی آسکتا ہے، کیونکہ افغانستان کے مہاجرین بھی ایران میں اس وقت لاکھوں کے تعداد میں پناہ گزیں ہیں، کسی بھی ممکنہ جنگ کے نتیجے میں پاکستان پر انواع و اقسام کے دباؤ بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان، ایک غیرجانبدار مملکت کی حیثیت سے خود کو کسی بڑی جنگ سے بچانے کی کوشش میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ پاکستانی تاریخ کا سب سے اہم و بڑا فیصلہ ہوگا۔اس وقت دنیا بھر کی نظریں ایران پر ہیں کہ وہ انتقامی کاروائی کے طور اپنے سب سے بڑے اثاثے کے نقصان کے بعد، امریکا پر کس طرح اور کہاں سے حملہ کرے گا۔ گو کہ اس وقت اشد ضرورت ہے کہ سلامتی کونسل سمیت عالمی طاقتوں کو کسی انتقامی کاروائی سے قبل مصلحانہ کردار کے لئے قدم اٹھا لینا چاہیے۔
توقف سے جنگی صورت حال کے بعدمصالحت کی کوششوں کو دشواری کا سامنا ہوگا۔ یہ ایک امکانی جائزہ ہے کہ اگر ایران،و امریکا کے درمیان تصادم ہوگیاتو کئی عالمی طاقتیں بھی اس جنگ کا حصہ بن سکتی ہیں، دوسرا اہم پہلو یہ بھی سامنے ہے کہ ایران امریکی مفادات،(جو عظیم مشرق وسطیٰ میں ہیں) انہیں نقصان پہنچانے پرہی اکتفا کرے۔ کیونکہ ایران ایسی قوت بہرحال نہیں رکھتا کہ وہ امریکا میں موجود کسی اعلیٰ عہدے دار یا تنصیب کو براہ راست حملہ کرکے انتقام لے سکے۔تاہم امریکی اعلیٰ حکام میں سے کسی اہم شخصیت یا تنصیب کو عظیم مشرق وسطیٰ میں نشانہ بنانے کے زیادہ امکانات ہیں۔ عرب ممالک میں بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم زیادہ قیاس آرائی فغانستان کی جانب ظاہر کی جارہی ہے کیونکہ یہاں ایران کو اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لئے کئی جنگجو گروپوں کا تعاون بھی حاصل ہے اور عراق، شام،لبنان اور عرب ممالک کے بانسبت افغانستان میں فضائی حملہ(ڈرون /میزائل حملہ) کرکے امریکا مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر اس امکان کودیکھا جائے تو یہاں بھی پاکستان کے لئے مسائل میں بادل نخواستہ اضافہ ہونے کے خدشات موجود ہیں۔
امریکا کے پاکستان پر فوجی تربیت دینے کی پابندی اٹھانے سے کئی غلط فہمیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ خاص طور پر ملائیشیا سمٹ میں عدم شمولیت کے بعد واضح طور پر پاکستان ایک ایسے بلاک میں شامل نظر آرہا ہے جو ایران مخالف ہے۔یہ ایک بڑی واضح صورتحال ہے۔ امریکا کے لئے افغانستان کی سرزمین اک متبادل کے طور پر موجود ہے جہاں سے ایران کو خطرات ہیں، لیکن یہاں امریکا کے سامنے افغان طالبا ن سخت حریف کی صورت میں بھی موجود ہے۔جس کے سبب امریکا، مزید رسک لینے سے گریز بھی کرسکتا ہے۔ عراق، امریکا کے لئے اب ساز گار نہیں رہا کیونکہ اس بار عراقی عوا م جہاں ایران کے خلاف سراپا احتجاج ہیں تو امریکا سے بھی نالاں ہیں۔واحد پاکستان ایک ایسا ملک رہ جاتا ہے جو امریکاو حلیف ممالک کے مفادات کے لئے آئیڈیل ہے۔
ان حالات میں خدانخواستہ کسی بھی حوالے سے پاکستان نے ماضی کی طرح کوئی غلط پالیسی کو عوام کے اعتماد میں لئے بغیر اپنالی تو اس کے بدترین مضمرات ہوں گے۔ ریاست کی کوشش تو یہی ہے کہ صورتحال مزید خراب نہ ہو،نیز جب تک صورتحال کشیدہ ہے، اس کا رخ مشرق وسطی تک ہی رہے۔ اربا ب اختیار کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ضرور غور کرنا ہوگا کہ افغانستان میں امریکا کا سہولت کار بننے کا نقصان پہلے ہی اٹھا رہے ہیں، اگر ایران کے معاملے میں اس غلطی کو دوہرا دیا گیا تو صورتحال قطعی مختلف ہوگی کیونکہ فرقہ وارانہ کشیدگی پاکستا ن میں ایک منظم سازش کے تحت پہلے ہی پھیلائے جانے کی کوشش کی جا چکی ہے اور ایسی کئی کالعدم تنظیمیں ہیں جواس کشیدگی کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کے لئے نہ ختم ہونے والی خطرناک خانہ جنگی کا سبب بن سکتا ہے۔لہذا جو بھی فیصلہ کریں ماضی کے تجربات کو ضرور مدنظر رکھیں۔