ایران سے متعلق امریکا اور اسرائیل کی پہلی اسٹریٹیجک میٹنگ

Netanjahu and Joe Biden

Netanjahu and Joe Biden

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا اور اسرائیلی اعلی عہدیداروں کی یہ میٹنگ ایسے وقت ہوئی ہے جب بائیڈن انتظامیہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں دوبارہ شمولیت کے امکانات پر غور کر رہی ہے۔

امریکی اور اسرائیلی اعلی عہدیداروں نے اپنی پہلی اسٹریٹیجک میٹنگ میں مشرق وسطی میں درپیش سکیورٹی چیلنجز نیز تہران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے سلسلے میں سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے میں امریکا کے دوبارہ شامل ہونے کی بائیڈن انتظامیہ کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا۔

امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان اور ان کے اسرائیلی ہم منصب میر بن شبات نے جمعرات کے روز ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ بات چیت کی۔ جنوری میں صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان پہلی باہمی سیکورٹی میٹنگ تھی۔ ایران جوہری معاہدے میں امریکا کی دوبارہ شمولیت کے حوالے سے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اپنے اختلافات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

وائٹ ہاوس کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایملی ہورن نے امریکی اور اسرائیلی قومی سلامتی مشیروں کے درمیان ہونے والی میٹنگ کی بعض تفصیلات بتاتے ہوئے کہا”بات چیت کے دوران فریقین نے علاقائی سلامتی سے متعلق باہمی دلچسپی کے امور پر اپنے خیالات اور تشویش سے ایک دوسرے کو آگاہ کیا۔ فریقین نے ایران کے حوالے سے بھی بات چیت کی اور خطے کو درپیش چیلنجز اور خطرات کا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مقابلہ کرنے کے اپنے عزائم کا اظہار کیا۔”

یہ میٹنگ ایسے وقت ہوئی ہے جب بائیڈن انتظامیہ ایران کے ساتھ سن 2015 کے جوہری معاہدے میں دوبارہ شمولیت کے امکانات پر غور کر رہی ہے، جس سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں امریکا کو یک طرفہ طورپر الگ کر لیا تھا۔ اوراس کے بعد امریکا نے ایران کے خلاف پابندیاں سخت کر دی تھیں۔

افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر ایران سن 2015 کے جوہری معاہدے کے شرائط پر مکمل طورپر عمل کرنے کے لیے تیار ہو جائے تو امریکا اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے بات چیت کر سکتا ہے۔ دوسری طرف تہران کا کہنا ہے کہ بات چیت سے قبل امریکا ایران کے خلا ف عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا اعلان کرے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے جمعرات کے روز ایک بار پھر کہا کہ امریکا بات چیت میں شرکت کے لیے ایران کو یک طرفہ مراعات کی پیش کش نہیں کرے گا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو امریکا کے ایران جوہری معاہدے میں شمولیت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق انہوں نے حال ہی میں یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ اسرائیل ایران کے خلاف فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔

ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ شاہ بابل نبوکدنضر (بخت نصر) نے 598 قبل مسیح میں یروشلم فتح کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ یہودی مذہب کے پیروکار ہجرت کر کے ایرانی سرزمین پر آباد ہوئے تھے۔

نیتن یاہو نے حال ہی میں اپنی ایک تقریر کے دوران ایران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا”ہم نے آپ جیسی انتہا پسند حکومت کے ساتھ دوسرے ملکوں کے کسی معاہدے پرتکیہ نہیں کر رکھا ہے۔ ہم ہر وہ اقدام کریں گے جس سے آپ کو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہونے سے روکا جا سکے۔”

اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز سمیت دیگر اعلی اسرائیل عہدیداروں کا بھی کہنا ہے کہ چونکہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس لیے اسرائیل بھی ایران پر حملے کے اپنے ہنگامی منصوبے کو اپ گریڈ کر رہا ہے۔

وائٹ ہاوس کی پریس سکریٹری جین ساکی کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سفارتی راستہ اختیار کرنے کے اپنے عزم پر قائم ہے۔