مشہد (جیوڈیسک) ایران کے مختلف شہروں میں ہفتے کے روز نئے مظاہرے جاری ہیں۔ صوبہ خراسان کے شہر مشہد کے سٹی ہال کے سامنے ایک مرتبہ پھر سیکڑوں ٹرک ڈرائیور احتجاج کے لیے اکٹھے ہورہے ہیں ۔وہ مال برداری کی فیس میں اضافے ، کم کرایوں اور کاروباری لاگت میں اضافے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جبکہ ایران کی معیشت کا مسلسل زبوں حالی سے دوچار ہے۔
اصفہان شہر میں بھی ٹرک ڈرائیور کم اجرتوں اور فاضل پرزہ جات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔اہواز میں نیشنل اسٹیل گروپ سے وابستہ کمپنیوں کے سیکڑوں ملازمین نے گذشتہ کئی ماہ سے تن خواہوں کی عدم ادائی کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔انھوں نے اس موقع پر حکومت کے خلاف سخت نعرے بازی کی ۔ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا ملک چوروں کی آماج گاہ ہے ،یہ دنیا میں اس کا ایک ماڈل بن چکا ہے‘‘۔
ایران میں گذشتہ چند روز کے دوران میں سرکاری ملازمین ، بے روزگاروں اور ایرانی معاشرے کے مختلف طبقات نے مہنگائی ، افراطِ زر کی شرح میں اضافے اور ملکی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔
ایران کے جنوبی صوبے بوشہر میں واقع شہر چغداک میں رات سیکڑوں شہروں نے واٹر اتھارٹی کے دفتر کے سامنے پینے کے پانی کی عدم دستیابی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اس صوبے میں گذشتہ بیس روز سے پانی کی قلت پائی جارہی ہے اور حکام نے آب رسانی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔
اس سے قبل میروان میں شہریوں نے بلدیہ میں بدعنوانیوں کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی ۔اس شہر میں سڑکیں اور بازار کوڑا کرکٹ سے اٹے ہوئے ہیں۔مظاہرین نے احتجاج کے دوران میں کوڑے دانوں کو آگ لگا دی ۔
دریں اثناء ایران کی وزارت برائے اقتصادی امور کے سابق انڈر سیکریٹری حسین سمسامی نے اپنے طور پر خبردار کیا ہے کہ ملک کو آیندہ مہینوں میں بدترین افراطِ زر کا سامنا ہوسکتا ہے۔
ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی ایسنا کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ ’’ کرنسی کی سیکنڈری مارکیٹ کی اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کردہ افراط زر نے اپنا کام دکھانا شروع کردیا ہے اور دودھ ، اسٹیل ، لوہے ، لکڑی کی مصنوعات اور بہت سی دوسری اشیاء کی قیمتیں دُگنا ہوچکی ہیں‘‘۔