سعودی عرب (جیوڈیسک) عرب اتحاد کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمد العسیری نے کہا ہے کہ ایران نے یمن سے سعودی عرب کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’’اس سازش کا آغاز یمنی سرحد سے کیا گیا تھا اور اس کے جواب میں سعودی عرب اور عرب ممالک پر مشتمل اتحاد کی فورسز نے مملکت کے دفاع کے لیے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف اور صدر عبد ربہ منصور ہادی کی قیادت میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے دفاع کے لیے مداخلت کی تھی‘‘۔ وہ مارچ 2015ء سے جاری آپریشن فیصلہ کن طوفان کا حوالہ دے رہے تھے۔
احمد العسیری نے انٹرویو میں بتایا کہ ایران نے اپنے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے مقامی ملیشیاؤں کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ تہران نے حوثی ملیشیا کی مالی اور اسلحی مدد کا آغاز سنہ 2004ء سے کیا تھا اور تب حوثیوں نے معزول یمنی صدر علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خلاف بغاوت برپا کی تھی۔
یمن میں جاری خانہ جنگی کے دوران میں حوثی باغی ایران کے مہیا کردہ اسلحے کو استعمال کررہے ہیں اور اس حوالے سے آئے دن خبروں اور رپورٹس کی شکل میں انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔امریکا اور خلیجی ممالک بھی ایران پر حوثی باغیوں کو اسلحہ مہیا کرنے کے الزامات عاید کرتے ہیں جبکہ ایران سرکاری سطح پر ان الزامات کی تردید کرتا چلا آرہا ہے۔
جنرل احمد العسیری نے بتایا کہ سعودی انٹیلی جنس کو ایرانی ذرائع کی جانب سے حوثی جنگجوؤں کو ایک سو ڈالرز روزانہ دینے کا پتا چلا ہے۔اس کے علاوہ لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کی یمن میں حوثیوں کی تربیت کے لیے موجودگی کی انٹیلی جنس اطلاعات سامنے آچکی ہیں۔انھیں سعودی عرب کے اندر خودکش کارروائیوں کی بھی تربیت دی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ سعودی فورسز کو یمن کو ایک ایسا میزائل اڈا بننے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں تھی جہاں سے سعودی مملکت کی سلامتی اور استحکام کو خطرات لاحق ہوسکتے تھے جبکہ ایرانیوں نے ایسی ہی سازش کی تھی اور وہ یمن کو ایک فوجی اڈے میں تبدیل کرکے وہاں سے سعودی مملکت پر حملے کرسکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یمن کا سرحدی علاقہ اس سازش کے نتیجے میں غیر مستحکم بن جاتا اور پھر وہاں سے ایجنٹوں کو سعودی عرب میں دراندازی کا موقع مل جاتا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ یمن میں جنگ کے آغاز کے بعد سے سعودی عرب کی جانب 48 بیلسٹک میزائل داغے گئے ہیں اور حوثی ملیشیا کی جانب سے سعودی مملکت کی حدود میں یا یمن کے اندر سعودی فورسز پر 138 راکٹ فائر کیے گئے ہیں ۔
بریگیڈیئر عسیری کے بہ قول یہ یقین کیا جاتا ہے کہ یہ میزائل چین ،شمالی کوریا اور سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں تیار کیے گئے تھے۔اس کے علاوہ ایران ان میزائلوں کی تیاری اور مرمت کا ذمے دار رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سب خطرناک بات یہ ہے کہ یہ ہتھیار ملیشیاؤں کے کنٹرول میں ہیں اور وہ غیر ریاستی عناصر ہیں۔اگر کسی ملک میں کوئی ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے تو اس کی حکومت کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن غیر ریاستی عناصر کو کوئی تسلیم نہیں کرتا ہے۔اس لیے ان کے قبضے میں آنے والے جدید ہتھیار بہت ہی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ اگر ایران یمن میں حکمرانی کی کوشش کرتا تو سعودی عرب کی فضائی دفاعی صلاحیتوں کو دو محاذوں مشرقی اور جنوبی محاذ پر لگا دیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔انھوں نے مزید بتایا کہ اس وقت قریباً ایک لاکھ سکیورٹی اہلکار یمن کے ساتھ واقع سرحد پر تعینات ہیں اور وہ چند روز ہی میں یمن پر قبضہ کرسکتے تھے لیکن ہمارا یہ مقصد نہیں تھا کیونکہ ہم یمن میں قانونی حکومت کی حمایت کررہے تھے اور اس کی پورے ملک میں عمل داری چاہتے تھے۔
انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج دو سال کی جنگ کے بعد حوثیوں کو مہیا کیے جانے والے بیرونی ہتھیاروں تک رسائی سے محروم کردیا گیا ہے۔وہ اپنے بہت سے تربیت یافتہ جنگجوؤں اور لیڈروں سے محروم ہوچکے ہیں اور بہت سے دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ یمن میں کھیل کا پانسا پلٹ چکا ہے اور وہ اتحادی فورسز کے حق میں ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یمن میں فوجی مداخلت کے تین مقاصد تھے،ایک یمنی ریاست کو محفوظ بنانا ،دوم یمنی شہریوں کو درپیش خطرات میں کمی اور سوم سعودی سرحدوں کا تحفظ ۔ہم ان مقاصد کے حصول میں نمایاں کامیابی ملی ہے اور اس وقت یمن کی قانون حکومت کا ملک 85 فی صد علاقے پر دوبارہ کنٹرول ہو چکا ہے۔