ایران (جیوڈیسک) ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔انھوں نے سوموار کو انسٹاگرام پر اپنے استعفے کا ا علان کیا ہے۔
انھوں نے انسٹا گرام پر اپنے صفحے پر لکھا ہے:’’ میں گذشتہ برسوں کے دوران میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے خود سے ہونے والی لغزشیوں اور کمیوں ،کوتاہیوں پر معذرت خواہ ہوں۔میں ایرانی قوم اور حکام کا شکرگزار ہوں‘‘۔
جواد ظریف نے جولائی 2015ء میں ایران اور چھے بڑی طاقتوں کے درمیان طے شدہ جوہری سمجھوتے کو حتمی شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن گذشتہ سال مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس سمجھوتے سے انخلا کے بعد سے انھیں مغرب مخالف سخت گیروں کے تندوتیز حملوں کا سامنا تھا ۔
ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی تسنیم نے کہا ہے کہ’’ بعض ذرائع نے جواد ظریف کے استعفے کی تصدیق کی ہے لیکن یہ واضح نہیں ہوا کہ آیا صدر حسن روحانی اس کو منظور کر لیں گے‘‘۔
واضح رہے کہ امریکا نے گذشتہ سال نومبر میں ایران کے خلاف دوبارہ سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں جبکہ اس سمجھوتے میں شامل تین یورپی ممالک فرانس ، برطانیہ اور جرمنی امریکا کے جوہری سمجھوتے سے انخلا کے بعد سے اس کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں اور وہ ایران میں کاروبار کرنے والی یورپی کمپنیوں کو بھی امریکی پابندیوں کے اثرات سے بچانا چاہتے ہیں۔
مگر خود جواد ظریف نے امریکا کی دستبردار ی کے بعد ایک بیان میں جوہری سمجھوتے کو ’’ قریبِ مرگ ‘‘ مریض قرار دے دیا تھا اور کہا تھا کہ ’’ جوہری سمجھوتا جان کنی کے عالم میں ہے اور یورپی فریقوں کی جانب سے مذاکرات کے دوران میں کوئی واضح موقف اختیار نہ کرنے کی وجہ سے اپنی موت آپ مررہا ہے۔ہم نہیں جانتے کہ یورپی اب اور کتنی دیر امریکی پابندیوں کی مزاحمت کریں گے کیونکہ یورپی کمپنیوں کے زیادہ تر حصص داران تو امریکی ہیں‘‘۔
جواد ظریف نے مغرب کے ساتھ یہ جوہری سمجھوتا طے پانے کے کوئی ڈیڑھ ایک سال کے بعد ایران کی قومی سلامتی کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے مغرب کے ساتھ جوہری مذاکرات کے دوران میں فیصلے کی غلطی کی تھی۔