امریکہ سے ایرانی تعلقات

Pakistan, Iran

Pakistan, Iran

پاکستان اور ایران کے تعلقات ہمیشہ دوستی اور بھائی چارے کی بناد پر استوار رہے ہیں ۔ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے اقتدار کے خاتمے کے باوجود پاکستان ا یران تعلقات بر قرار رہے۔ 1964، کے (RCD) موجودہ ریجنل کو آپریشن ڈیویلپمنٹ ECO کے معاہدے کے بعد ایران پاکستان اور بھی نزدیک آگئے تھے۔ پاکستان کی آزادی کے فوری بعد ایران ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو بحیثیت ایک آزاد اسلامی مملکت کے تسلیم کیا تھا اور ستمبر 1947 کوپاکستان کی اقوام متحدہ میں شمولیت کی بھر پور حمایت بھی کی تھی۔اس کے جواب میں پاکستان نے بھی ایران عراق جنگ کے دوران سعودی عرب کی مخالفت کے باوجود ایران کی حمایت 1980 تا 2000 جاری رکھی۔مگر ایرا ن پاکستان تعلقات طالبان حکومت کی پاکستان کی حمایت کے نتیجے میں بگڑنا شروع ہو گئے تھے۔ 1989 کے بے نظیرکے پہلے دور اقتدار میںطالبان کی حمایت کی وجہ سے ایران پا کستان سے دور اور ہندوستان سے نزدیک تر ہوتا چلا گیا۔ 1998 میں ایران پاکستان تعلقات اُس وقت مزید خراب ہو گئے جب طالبان نے ایران کے گیارہ ڈپلومیٹ اور35، ٹرک ڈرائیوروں اور ایک ایرانی صحافی کو قتل کر دیا۔اس قتل کا پاکستان تو ذمہ دار نہ تھا مگر نزلہ پاکستان پر ہی گرایا گیا،وجہ اس کی یہ تھی کہ پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم کر لیاتھا۔

پاکستان کے لئے ایران کی جانب سے سب سے زیادہ تکلیف وہ وقت تھا جب پاکستان نے 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کئے ۔تو ایران نے ان ایٹمی دھماکو کی سخت مخالفت کی تھی۔اس کے مقابلے پاکستان نے ہمیشہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی مہشہ زبردست حمایت 1987 سے جاری رکھی ہوئی تھی۔ناصرف یہ بلکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے میں پاکستان کا اہم کردار رہا ہے۔ ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی کی پاداش میں ہی پاکستان کے ہیرو نمبر ون کو ایک فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نامی بد معاش نے امریکہ کی آشیرواد سے ساری دنیا کے سامنے ذلیل کر کے رکھ دیا تھا اور یہ سب کچھ ایران کی وجہ سے ہو ا تھا۔

اس وقت ایٹمی پروگرام کی بڑ ھو تری کی وجہ سے ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود اور امریکہ کی شدید مخالفت کے باوجود بھی پاکستان نے پاک ایران گیس پائپ لائن ڈالنے کے منصوبے پر دستخط کر دیئے تھے حالانکہ اس میں ہندوستان بھی ایک پارٹنر تھا مگر وہ امریکہ کے دبائو میں آگیا اور اُس نے اس منصوبے سے امریکی دبائو کے پیشِ نظر ہاتھ کھینچ لیا۔اس صورٹ حال کے باوجود ہندوستان ایران کا سجن ٹہرا اوراسلامی جمہوریہ پاپاکستان اس کے برے دوستوں میں شامل کرلیا گیا ہے۔جو دوستی کے تمام اصولوں کے بر عکس ہے اور پاکستان آج بھی مغرب اور مڈل ایست کے بعض ممالک کی جانب سے شدید مخالفت کے باوجود پاکستان ایران سے اپنے بہترین تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے بر عکس ایران گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کے ساتھ اپنے معاندانہ رویئے پر مسلسل کا بند دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے ایرانی ڈپلومیٹ پاکستان کے اندر بھی معاندانہ کاروئیوں میں مسلسل ملوث دکھائی دیتے ہیں اور پاکستان کی ایک کمیونیٹی کو اکساتے رہتے ہیں۔

ایران کے اندر ایرانی بلوچ ایک مدت سے زاہدان کے علاقے میں سیستان بلوچستان کی آزادی کی جدو جہد میں مصروف ہیں مگر کبھی بھی پاکستان نے ان آزادی پسند بلوچوں کی حمایت نہیں ۔بلکہ انہیں پاکستان نے کبھی اپنی سر زمین ان کی کاروائیوں کے لئے استعمال نہ کرنے دی۔ اس کے برعکس ایران مسلسل پاکستانی شیعوں کواشتعال انگزیز کاروائیوں میں مدد فراہم کرتا رہا ہے تاکہ پاکستان میں شیعہ سنی نفرتوں میں اضافہ کیا جا سکے۔ ایران پاکستان کی دوستی اور نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوے پاکستان کے اندرونی معاملات می مسلسل خاموشی کے ساتھ دخل اندازی کرتا چلا آرہا ہے۔ پاکستان میں ایرا ن نے اپنے ایجنٹوں کو سی آئی اے کی طرح پھیلایا ہوا ہے۔

جن کی پشت پناہ ایک مقامی لسانی سیاسی تنظیم اور ایک پاکستان بیسڈ سیاسی جماعت ہے جس کا ہر بڑا رہنما ایران کا بہی خواہ ہے۔ایرانی ایجنٹوں میں سے بعض سنیوں کا چولہ پہن کر بھی پاکستان کے علما اور عوام کو ور غلانے میں ایک نام پیدا کر چکے ہیں۔ ایسے لوگوں کے چہرے فیس بک پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔در حقیقت یہ لوگ پاکستانی شیعوں کے بھی ہمدرد نہیں ہیں ان کا مقصد پاکستان میں انتشار پیدا کر کے اپنے آقائوں کے مقاصد کی تکمیل ہے۔جو پاکستان کو ایرانی اسٹائل کی مملکت بنانے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔

یہاں جیش محمد اور اس جیسی تنظیمیں پاکستان میں پاکستانیت اور اسلام کا حلیہ بگاڑنے کے لئے لگا دی گئی ہیں۔جنکی فنڈنگز، دہشت گردی کی تربیت اور اسلحے کی ترسیل ایرانی بارڈرسے کی جا رہی ہے۔پاکستان میں بہت سے سنی علماء کے قاتلوں میں ایران کے سا تھ پاکستان میں ایک لسانی تنظیم بھی ملوث رہی ہے۔پاکستان کے ان علماء کے قاتلوں سے متعلق ہمارے ادارے واشغاف الفاظ میں بتا چکے ہیں کہ ان کی تربیت ،فنڈنگز اور اسلحہ کی ترسیل میں ایرانی ادارے اور حکومت برابر کے شریک بتائے جاتے ہیں۔

Baloch Separatists

Baloch Separatists

ایران کے بلوچ حریت پسندوں کوجو اپنے علاقے سیستان و ایرانی بلوچستان پر ایرانی تسلط کے خلاف اپنی آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیںاور جن کی پاکستان کے عوام اور حکومتوں نے کبھی بھی حمایت نہیں کی اور نا ہی ایرانی سرحدوں پر متعین ایرانی اہلکاروں کو کبھی اغوا کرایا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے یہ دھمکی آمیز بیان دے کر کہ اغوا کار ان لوگوں کو پاکستان لے گئے ہیںاگر حکومت پاکستان نے ان لوگوں کو بازیاب نہ کرایا توایران اپنی فوجوں کو پاکستان میں داخل کر دے گا!!!یہ دھمکی آمیز روئیہ ایرانیوں کا امریکہ کے ایرانیوں کو منہ لگانے کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے۔ جس کے بعدایرنی حکمرانوں نے پاکستان پر الزام تراشیوں کا نیاسلسلہ شروع کردیا ہے اور یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ایرانی بلوچ حریت پسندوں نے ایرانی سرحدی محافظوںکو پاکستان
منتقل کر دیا ہے۔جبکہ پاکستانی ایجنسیاں یہ واضح کر چکی ہیں کہ ایرانی مغوی محافظوں کے پاکستان میں موجودگی کے شواہد نہیں ملے ہیں۔ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان میں اپنی فوجوں کے داخلے کی دھمکی دے کر اپنی اندر کی پاکستان سے چھپی ہوئی نفرت کا بر ملا اظہار کر کے علاقے کو بد امنی کا شکار بنانے کی مزموم کوشش کی ہے جو انتہائی قابلِ مذمت ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ذمے ذمہ داروں نے دفتر خارجہ سے انتہائی نرم لہجے میں کہا ہے کہ ایرانی فورسز کو پاکستان کی سرحدیں عبور کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔اگر ایران ایسا کرے گا تو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔دونوں ممالک کو ایکدوسرے کی سرحدوں کا احترا کرنا چاہیئے دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم ایرانی حکام کو آگاہ کر چکے ہیں کہ ایف سی نے پورے علاقے کی تلاشی لی ہے کہ مغوی ایرانی محافظوں کے پاکستان میں داخلے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔ایسا ممکن ہے کے ایرانی اغوا کار ایران کے ہی کسی علاقے میں چھپے ہوں۔ پاکستان کا دفترِ خاجہ ایران کے وزیر خارجہ کے مذکورہ بیان کو نہایت ہی تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ ایران پاکستان سے تعلقات کی خرابی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ایران آج کھل کر پاکستان مخالفت پر کمر بستہ دکھائی دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تخریبی سر گرمیوں میں اس کے بھیجے ہوے تربیت یافتہ لوگ پکڑے بھی گئے ہیں۔ابھی تو ایران ایٹمی قوت بننے سے خاصے فاصلے پر ہے مگر بزرگ کہتے ہیں کہ”پوت کے پیر تو پالنے میں ہی دکھائی دیتے ہیں”ہم نے آج تک ایران کے ایٹمی پرگرام پر بات نہیں کی ہے اب ہمیں ایران کے غیر قانوں ایٹمی پروگرام سے بھی ہوشیار رہنا ہوگا۔کیونکہ کل یہ ہماری اور دوسری جانب مڈل ایسٹ کی سلامتی کے لئے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔اب پاکستان کو ایران کے یورینیم افزادہ کرنے کے پروگرام پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔اس وقت ہندوستان امریکہ کا شہسوار بننے میں ذرا ہچکچا رہا ہے اور ایران اس کے لئے بالکل تیار دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ اسے اس علاقے میں اپنے ٹوڈی کی اشد ضرورت ہے۔ایران امریکہ سے دوستی پاکستان کی قیمت پر کر رہا ہے جو اسے مہنگی پڑے گی۔

ایرانی حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ ہماری فوجوں نے بھی کوئی چوڑیان نہیں پہن رکھی ہیں کہ جو چاہے پاکستان کی سرحدوں کو پامال کرتا پھرے…..اسوقت ایران ایسا ماحول پیدا کر کے امریکہ کوخوش کرنا چاہتا ہے۔ایران کی یہ حکمتِ عملی علاقے کے لئے انتہائی خطر ناک ثابت ہوگی۔ ہمیں ایکدوسر سے نبرد آزما ہونے کے بجائے تدبر سے کام لیتے ہوے اپنے ماضی کے رشتوں کو یاد رکھنا چاہئے اور ہر قسم کی جارحیت سے بچتے ہوے باہمی تعاون کے ذریعے اپنے بگڑ تے ہوے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

Shabbir Khurshid

Shabbir Khurshid

تحریر:پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com