ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی پارلیمان نے ابراہیم رئیسی کی نئی حکومت میں حسین امیر عبداللہیان کی وزیر خارجہ کے طورپر تقرری کی تصدیق کردی۔ حالانکہ وہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی وجہ سے یورپی یونین کی طرف سے پابندی کی فہرست میں شامل ہیں۔
ایرانی پارلیمان نے بدھ کے روز نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی کی کابینہ کی توثیق کردی۔ کابینہ نے نئے وزیر خارجہ کے طورپرحسین امیر عبداللہیان کی تقرری کی بھی تصدیق کردی۔ وہ جواد ظریف کے جانشین ہوں گے، جو ایران جوہری معاہدہ مذاکرات میں پیش پیش رہے اور جنہیں امریکا اور امریکی عہدیداروں کے ساتھ معاملات طے کرنے کا برسوں کا تجربہ ہے۔ دوسری طرف حسین امیر عبداللہیان انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی وجہ سے یورپی یونین کی جانب سے پابندی عائد کیے جانے والے افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔
جواد ظریف نے حسین امیر عبداللہیان کو وزارت خارجہ کا عہدہ ملنے پر مبارک باد دی۔ انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے تہنیتی پیغام میں لکھا،” آپ کو، آپ کی وزارت اور اس کے عہدیداروں اور نئی انتظامیہ کو مبارک باد۔ بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں آپ کو ڈھیر ساری کامیابیاں حاصل ہوں۔”
جواد ظریف ایران جوہری معاہدہ مذاکرات میں پیش پیش رہے۔ انہوں نے اقو ام متحدہ میں ایران کے سفیر کے طورپر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ امریکا سے اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ اس کے برخلاف امیر عبداللہیان پر،جب وہ جج کے عہدے پر فائز تھے، انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے الزام میں یورپی یونین نے پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔
امیر عبداللہیان قدامت پسند سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دور حکومت میں عرب اور افریقی امور کے نائب وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ احمدی نژاد ہولوکاسٹ کا انکار کرنے اور سن 2009 میں دوبارہ متنازعہ طور پر منتخب ہونے کے لیے زیادہ معروف ہیں۔
ایرانی پارلیمان نے صدر ابراہیم رئیسی کی جانب سے نامزد کابینہ کے 19 وزراء میں سے 18کی توثیق کردی۔ صرف وزیر تعلیم کی ان کے اسناد پر اختلافات کی وجہ سے پارلیمان نے نامزدگی مسترد کردی۔ کابینہ میں شامل بیشتر وزراء یورپی یونین اور امریکا کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
عبداللہیان کی وزیر خارجہ کے طورپر توثیق کے فورا ًبعد، ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف نے ایک پیغام میں ان کو نیا عہدہ سنبھالنے کی مبارکباد دی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں ایران اور روس کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کی بڑھتی ہوئی اعلٰی سطح پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ آپ، ایران اور روس کے درمیان ہمہ جہتی تعاون کی مضبوطی کے خواہاں ہیں۔
لاوروف نے کہا کہ دونوں دوست ممالک کے عوام کے مفاد نیز بین الاقوامی امن اور استحکام کے حصول کے لیے ایران اور روس کے درمیان تعلقات میں مزید اضافے کے لیے پُر امید ہوں۔ روسی وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب کی کامیابی کی دعا کی اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
نئے وزیر خارجہ کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ ان کا ایران کے پاسداران انقلاب فورس نیز حزب اللہ اور خطے میں ایران کے لیے درپردہ کام کرنے والے دیگر گروپوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ وہ بحرین میں سفیر بھی رہ چکے ہیں اور سن 1997سے 2001 کے درمیان بغداد میں ایرانی سفارت خانے کے نائب سربراہ کے طورپر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
عبداللہیان ایسے وقت میں وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھال رہے ہیں جب ایران کو داخلی اور بین الاقوامی سطح پر کئی طرح کے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔
ایران سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے گزشتہ اپریل سے ہی مذاکرات کررہا ہے تاکہ اس پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ختم ہوسکیں۔ 5 اگست کو رئیسی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ویانا میں اس موضوع پر بات چیت کا آخری دور 20 جون کو ہوا تھا۔ گوکہ رئیسی نے مذاکرات کی تائید کی تھی تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بات چیت دوبارہ شرو ع ہونے پر فریقین زیادہ سخت موقف اختیار کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکا چھ ملکی ایران جوہری معاہدے سے سن 2018 میں یک طرفہ طورپر الگ ہوگیا تھا۔ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے سے الگ ہونے کے بعد ایران کے خلا ف مزید پابندیاں عائد کردی تھیں۔