برلن (جیوڈیسک) وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے پیر اٹھائیس جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی کی رپورٹوں کے مطابق چانسلر میرکل نے یہ بات اتوار کی رات اسرائیل میں ایک ریڈیو سے نشر ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔ انگیلا میرکل کا یہ انٹرویو اتوار ستائیس جنوری کو منائے جانے والے ہولوکاسٹ میموریل ڈے کے موقع پر نشر کیا گیا۔
میرکل نے اپنے اس انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل ایرانی پالیسیوں پر جس تشویش کا اظہار کر رہا ہے، وہ جرمنی کے لیے قطعی قابل فہم ہے اور یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ اسرائیل کے لیے اس کے سلامتی سے متعلق مفادات کا تحفظ درست بھی ہے اور اس کا حق بھی۔
جرمن چانسلر نے دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام یا ہولوکاسٹ کی یاد میں منائے جانے والے یادگاری دن کے موقع پر اسرائیلی ریڈیو کے ساتھ اپنے اس انٹرویو میں مزید کہا، ’’یہ درست ہے کہ ایران ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، جو اسرائیل کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔‘‘
اسی انٹرویو میں جب جرمن سربراہ حکومت سے اسرائیل کے ہمسایہ اور خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں اسرائیل کی طرف سے ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جانے والے فضائی حملوں سے متعلق ایک سوال کیا گیا، تو چانسلر میرکل نے کہا، ’’اسرائیل کو لازمی طور پر اپنی بقا کا تحفظ کرنا ہے۔ اور شام کی صورت حال بھی ظاہر ہے کہ اسرائیل کے لیے بہت پرخطر ہے۔‘‘
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
اسی پس منظر میں جرمن چانسلر نے اسرائیلی ریڈیو کو بتایا، ’’یہی وجہ ہے کہ ہم اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ، مثال کے طور پر، شام میں ایرانی دستے گولان کی پہاڑیوں کے قریب تک نہ پہنچیں۔‘‘ میرکل کے مطابق وہ اس بارے میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بھی بات چیت کر چکی ہیں۔
اسرائیلی فضائیہ نے گزشتہ ہفتے شام میں ایرانی اہداف کو بڑے فضائی حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے یہ حملے اس لیے کیے تھے کہ ان سے قبل گزشتہ اتوار کی رات جنگ زدہ شام سے گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کے شمالی حصے پر ایک راکٹ فائر کیا گیا تھا۔
اسرائیلی ایئر فورس اب تک شام میں مختلف اہداف پر متعدد مرتبہ حملے کر چکی ہے، جن کا مقصد اس کے مطابق یہ تھا کہ بڑے حریف ملک ایران کو شام میں اس کی مستقل فوجی موجودگی سے روکا جا سکے۔ شامی خانہ جنگی میں ایران اور روس صدر بشار الاسد کے بڑے سیاسی اور عسکری اتحادی ہیں۔