ایرانیوں کی فیس بک کے ذریعے امریکا کی جاسوسی

Facebook

Facebook

تہران (جیوڈیسک) ایرانیوں کی محیر العقول سائبر جاسوسی کا پردہ چاک کرنے والی انٹیلی جنس فرم ‘آئی سائٹ پارٹنرز’ کا کہنا ہے کہ سائبر نقب زنوں کا شکار بننے والوں میں امریکی فوج کے چار جنرل، نیوی میں ایڈمرل رینک کا افسر، پارلیمنٹرینز، سفراء، امریکن اور اسرائیلی لابی کے ارکان شامل تھے۔

اسی فرم کا کہنا ہے کہ برطانیہ، سعودی عرب، شام، عراق اور افغانستان کے متعدد حکام بھی ایرانی جاسوسوں کا شکار بنے۔ سائبر سپیس میں ایرانی نقب زنی کا بھانڈا پھوڑنے والی فرم نے متاثرہ افراد کی شناخت بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے وہ یہ بھی بتانے سے قاصر ہیں کہ اس کوشش میں کس قسم کا ڈیٹا چُرایا گیا ہے۔ ایرانی سائبر نقب زن مختلف حکومتی اور کاروباری نیٹ ورکس تک رسائی چاہتے تھے۔

نیز ان کا مقصد اہم اداروں سے منسلک اعلی عہدیداروں کے کمپیوٹرز کو وائرس سے ناکارہ بنانا تھا۔ آئی سائٹ کے ایگزیکٹیو وائس پریذیڈنٹ ٹفنی جونز نے بتایا کہ سائبر نقب زن کو اپنی کارروائیوں کے لئے مزید وقت مل جاتا تو ان کی کامیابی نوشتہ دیوار تھی۔ آئی سائٹ نے ایرانی نقب زنوں کو بے نقاب کرنے والے اپنے آپریشن کو ‘نیوز کاسٹر’ کا کوڈ نام دیا کیونکہ کمپنی کے بقول ایرانی سائبر جاسوسوں نے چھ جعلی اکاﺅنٹ تیار کئے جن کی مدد سے انہوں نے اپنے اہداف کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ مختلف میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔

ہیکروں نے اس کے علاوہ آٹھ مزید ای میل اکاﺅنٹس بنائے جن سے وہ اپنے اہداف کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ انہیں موصول ہونے والی ای میلز دراصل کچھ دفاعی ٹھیکداروں کی جانب سے کی جا رہی ہے جنہیں کچھ معلومات درکار ہیں۔ فیس بُک اور دوسرے آن لائن سوشل میڈیا پر ایرانی ہیکروں نے بے نام اکاﺅنٹس بنائے اور ان خیالی شخصیات کے بارے میں جعلی معلومات کا اندارج کیا۔ اس کی مدد سے انہوں نے اپنے ہدف سے دوستی کرنے کی کوشش کی۔ آئی سائٹ کے بقول یہ کارروائی 2011ء سے جاری تھی۔

فرم نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ یہ مہم اب تک کی جانے والی جاسوسی مہمات سے اس لحاظ سے ممتاز تھی کہ اس میں سوشل ویب سائٹ پروفائلز کے ذریعے نقب لگانے کی کوشش کی گئی۔ ہیکروں نے اپنے اہداف کے ہاں اپنا اعتماد بنانے کے لئے اعلی عہدیداروں کے ان ہم جماعتوں، دوستوں، ساتھ کام کرنے والوں اور رشتہ اداروں سے راہ و رسم بڑھائے کہ جو فیس بک، گوگل، یو ٹیوب، لنکڈ ان اور ٹویٹر جیسے پلیٹ فارمز استعمال کر رہے تھے۔ چالاک ہیکرز اپنے اہداف کو پہلے پہل صرف اخباری مضامین کے لنکس ارسال کرتے تا کہ ان کے شکار کسی قسم کا شک نہ گزرے۔

اعتماد بحال ہونے پر یہی جاسوس اپنے ہائی پروفائل اہداف ایسے لنکس ارسال کرتے جن کی مدد سے مشکوک سافٹ ویئر شکار کے کمپیوٹر میں انسٹال ہو جاتے یا پھر کھلنے والے لنکس شکار کو ایسی ویب سائٹ پر لے جاتے جہاں رسائی کی خاطر لاگ ان معلومات درکار ہوتی تھیں۔ ہیکروں نے چودہ خیالی اکاﺅنٹس کے ذریعے 2000 افراد سے دوستانہ روابط قائم کئے، تاہم کارروائی کے تانے بانے دیکھ کر اس بات کا یقین کرنا مشکل نہیں کہ ہیکروں نے کئی سو دوسرے افراد کو بھی اپنی دوستی کا مزا چکھایا ہو گا۔