لوزین (جیوڈیسک) ایران کے جوہری پروگرام پر عبوری سمجھوتے کی ڈیڈ لائن کے خاتمے کے قریب روس کے وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے کہا ہے کہ عبوری معاہدہ طے پانے کے امکانات ’بہت زیادہ‘ ہیں۔مذاکرات نے مثبت نتائج ملیں گے۔ مذاکرات کے آخری مرحلے میں دوبارہ نوران جانے کا اعلان بھی کیا۔
اس عبوری معاہدے کے لیے دی گئی حتمی مدت منگل کی شب ختم ہوگئی اور مذاکرات کاروں نے دوبارہ مذاکرات شروع کیے ہیں۔امریکہ، برطانیہ، چین، روس، فرانس اور جرمنی کے مندوبین تقریباً ایک ہفتے سے ایرانی حکام سے بات چیت میں مصروف ہیں تاکہ 18 ماہ سے جاری ان جوہری مذاکرات کو کامیاب بنایا جا سکے۔معاہدے کے ڈیڈ لائن قریب آنے کے ساتھ ساتھ سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزین میں جاری مذاکرات میں بھی تیزی آگئی ہے۔منگل کو پریس کانفرنس سے خطاب میں روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’میرے خیال میں معاہدہ طے پانے کے بہت روشن امکانات ہیں۔‘لیکن یہ 100 فیصد نہیں ایسا کوئی مسئلہ نہیں جسکا 100 فیصد حل ممکن ہو ۔ روسی وزیر خارجہ پیر کو یہ کہتے ہوئے مذاکرات سے الگ ہوئے تھے کہ وہ تبھی واپس آئیں گے جب انھیں کسی معاہدے کے حقیقی امکانات پیدا ہوتے دکھائی دیں گے۔
دوبارہ مذاکرات کے اس فیصلہ کن دور میں دوبارہ شامل ہونے والے روسی وزیر خارجہ نے توقع ظاہر کی ہے کہ فریقین معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔مذاکرات کاروں کی کوشش ہے ڈیڈ لائن تک وہ معاہدے کے ڈھانچے پر متفق ہو جائیں جس کی بنیاد پر تکنیکی تفصیلات کے حوالے سے ایک وسیع البنیاد معاہدہ طے پا سکے جس کے لیے 30 جون کی حتمی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم رات گئے تک اور پھر کل کام جاری رکھیں گے۔ اب بھی کچھ مشکل معاملات باقی ہیں۔ ہم انھیں حل کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں اور ہر کوئی کل کی اہمیت جانتا ہے۔‘ایرانی مذاکراتی ٹیم کے رکن اور ملک کے نائب وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے بھی کہا کہ ’ہم فی الوقت اس مقام پر نہیں کہ کہہ سکیں کہ ہم معاملات کے حل کے قریب ہیں لیکن ہم پرامید ہیں اور اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔‘ایران کے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا’ذاتی طور پر میرے خیال میں یہ بھی ممکن ہے کہ ہم کل کسی معاہدے تک پہنچ جائیں یا یہ فیصلہ کر لیں کہ معاہدہ کرنا ممکن نہیں اور بات چیت کا رخ بدل جائے۔ جو بھی ہو ہم پرامید ہیں کہ کل یا پھر پرسوں یہ طے ہو جائے گا۔‘مذاکرات سے وابستہ ایک مغربی سفارت کار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہمیں لگ رہا ہے کہ وقت آ چکا ہے کہ معاہدہ ہو یا پھر نہیں۔
کیونکہ اگر ہم ابھی کسی قسم کے عبوری معاہدے پر متفق نہیں ہوتے تو اس چیز کی وضاحت کرنا بہت مشکل ہوگی کہ 30 جون تک ایسا کیسے ممکن ہو سکے گا۔‘ایران اور چھ عالمی طاقتیں نومبر 2013 میں ایک عبوری معاہدے پر اتفاق کے بعد طویل المدتی معاہدے کی حتمی مدت میں دو مرتبہ اضافہ کر چکی ہیں۔اب فریقین نے 31 مارچ تک جامع معاہدے کے خدوخال پر اتفاق اور 30 جون تک تکینکی تفاصیل کے ساتھ جامع معاہدے کی منظوری کی ڈیڈ لائنز مقرر کی ہوئی ہیں۔
امریکی کانگریس نے پہلے ہی متنبہ کر دیا ہے کہ اگر 31 مارچ تک اس سلسلے میں اتفاقِ رائے نہ ہوا تو وہ ایران پر مزید پابندیاں عائد کرے گی تاہم امریکی صدر براک اوباما پہلے ہی ان پابندیوں کو ویٹو کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔روئٹرز کے مطابق مستقبل میں ایران کی یورینیئم کی افزودگی پر تحقیق و ترقی اور اقتصادی پابندیاں اٹھائے جانے کی رفتار وہ معاملات ہیں جن پر اتفاقِ رائے نہیں ہو پا رہا۔جرمنی کے وزیرِ خارجہ فرینک والٹر سٹینمیئر نے بھی کہا ہے کہ مذاکرات کے کامیاب ہونے کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ایران کی جوہری تحقیق اور ترقی کا معاملہ ہے۔
ایک امریکی اہلکار نے کہا ضروری سمجھا تو مذاکرات ڈیڈ لائن سے آگے جا سکتے ہیں جس پر ایرانی مذاکرات کار ٹیم میں شامل رکن حامد نے جواب دیا مشکل معاملات حل کرنے پر تیار ہیں۔ جرمن سفارتکار نے کہا ابھی یہ واضح نہیں معاہدہ کب ہو گا۔ مذاکرات مشکل مرحلے میں داخل ہو گئے۔ادھر مذاکرات کی کوریج کیلئے گئے ایرانی صحافی عامر حسین نے سوئس حکام سے سیاسی پناہ مانگ لی۔سعودی عرب نے کہا معاہدے کیلئے عرب ممالک کا تعاون درکار ہو گا۔