جنیوا (جیوڈیسک) سوئٹزر لینڈ میں ایران کے جوہری پروگرام پر امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور ختم ہو گیا ہے۔جو 10 گھنٹے جاری رہا ۔ اگرچہ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے لیکن ابھی حتمی معاہدے کے لیے کچھ اہم معاملات طے ہونا باقی ہیں۔اس سلسلے میں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب جواد ظریف جلد دوبارہ ملیں گے۔
امریکی وزیرِ خارجہ اب سعودی عرب کے دورے پر ریاض جا رہے ہیں جہاں وہ خلیجی ممالک کی جانب سے اس معاہدے پر اعتراضات پر بات چیت کریں گے۔جان کیری ریاض میں سعودی فرمانروا سلیمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کریں گے اور خلیج تعاون کونسل کے وزرائے خارجہ سے بھی ملیں گے جن میں بحرین، قطر، کویت، اومان اور متحدہ عرب امارات کے وزارئے خارجہ شامل ہیں۔
خلیج کی سنی اکثریتی ریاستیں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور جوہری ہتھیاروں کے حصول کی خواہش سے خائف ہیں۔اس دورے سے قبل اسرائیلی وزیراِعظم بن یامین نتن یاہو نے امریکی کانگرس میں خطاب کرتے ہوئے ایران کے جوہری پروگرام پر کسی بھی ممکنہ معاہدے کو ایک سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے مذاکراتی عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔مذاکرات کے بعد جان کیری کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ ایران کے ساتھ جو بھی معاہدہ ہو وہ بین الاقوامی برادری کے لیے قابلِ قبول ہو۔سخت چیلنجز کا سامنا ہے لیکن کچھ پیشرفت بھی ہوئی ہے۔
سوئٹزر لینڈ کیذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے امریکی وزیرِخاجہ کا کہنا تھا کہ ’ان مذاکرات کا مقصد کوئی بھی معاہدہ کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد ایک صحیح معاہدہ کرنا ہے، ایسا معاہدہ جو جانچ پڑتال پر پورا اتر سکے۔‘ جان کیری نے کہا کہ ’شروع سے ہی یہ مذاکرات کٹھن رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔‘دوسری جانب جب ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے جواد ظریف سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ان مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ ہاں ہوئی ہے مگر ابھی بہت کام باقی ہے۔‘ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ اسرائیل خطے کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے ۔ اسرائیل امن کا دعویٰ کرتا ہے۔ عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری پروگرام پر مذاکرات سے دنیا مطمئن ہے۔