عراق (جیوڈیسک) عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے اسلحے کے سودوں میں بدعنوانیوں کے الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
عراق کے وزیر دفاع خالدالعبیدی نے سوموار کے روز پارلیمان کے ایک بند کمرے کے اجلاس میں سپیکر سلیم الجبوری اور بعض دوسرے ارکان پر اسلحے اور دفاعی سازو سامان کی خریداری کے سودوں پر اثرانداز ہونے کے سنگین الزامات عاید کیے تھے۔اس کے بعد وزیراعظم حیدرالعبادی نے حکومت کے تحت سچائی کمیشن کو ان الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
عراقی پارلیمان کے اسپیکر سلیم الجبوری نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ جب تک خود کو ان الزامات سے بری الذمہ قرار نہیں دلوا لیتے،اس وقت تک وہ پارلیمان میں اجلاس کی صدارت نہیں کریں گے۔
وزیر دفاع خالد العبیدی نے سوالوں کے جواب میں ایوان کو بتایا تھا کہ سلیم الجبوری اور دوسرے ارکان نے مختلف مواقع پر طیاروں ،فوجی گاڑیوں ،سویلین کاروں یا فوج کے لیے خوراک مہیا کرنے والی کمپنیوں یا کاروباری افراد کی جانب سے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی تھی۔انھوں نے فوجیوں ،افسروں اور دوسرے اہلکاروں کے وزارت دفاع میں تقررو تعیناتیوں کی بھی سفارش کی تھی۔
خالد العبیدی کو پارلیمان میں ان کی وزارت میں بدعنوانیوں سے متعلق الزامات پر پوچھ تاچھ کے لیے طلب کیا گیا تھا مگر انھوں نے الٹا اسپیکر اور ارکان پر بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عاید کر دیے ہیں۔وزارت دفاع پر مختلف دفاعی سودوں میں قومی خزانے سے اربوں ڈالرز اڑانے کے الزامات عاید کیے گئے ہیں۔
اجلاس کے بعد سلیم الجبوری نے سوموار کی شب ایک نشری نیوز کانفرنس میں کہا کہ ” ایوان میں آج جو کچھ ہوا ہے،یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا ہے تاکہ سوالات نہ پوچھے جاسکیں”۔ واضح رہے کہ وزارت دفاع میں جس وقت بدعنوانیاں ہوئی تھیں،اس وقت سابق وزیراعظم نوری المالکی ہی وزیردفاع تھے۔حیدرالعبادی وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے گذشتہ دو سال سے بدعنوانیوں پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں۔عراق میں سرکاری محکموں میں کرپشن عروج پر ہے اور وزراء اور سیاست دانوں پر بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عاید کیے جارہے ہیں۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے کرپشن انڈیکس کے مطابق عراق کا 168 ممالک میں ایک سو اکسٹھواں نمبر ہے۔
خالد العبیدی نے ہفتے کے روز ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ انھوں نے قلم دان سنبھالنے کے بعد اسلحے کے سودوں میں ہونے والی بدعنوانیوں میں نمایاں کمی کی ہے اور گھوسٹ فوجیوں کا سراغ لگا کر انھیں ادا کی جانے والی تن خواہیں بھی بند کی جارہی ہیں۔واضح رہے کہ گھوسٹ فوجی عملاً موجود نہیں ہیں لیکن ان کی تن خواہیں قومی خزانے سے وصول کی جاتی رہی ہیں۔