عراق (جیوڈیسک) عراق میں عدلیہ کی جانب سے ‘جلد بازی’ میں قیدیوں کو دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں پر اقوام متحدہ نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بغداد حکومت سے پھانسی کی سزاؤں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بغداد حکومت کی طرف سے قیدیوں کو حالیہ دنوں میں دی جانے والی موت کی سزاؤں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان سزاؤں میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ عراقی وزیراعظم حیدرالعبادی نے قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد میں تاخیر کے اسباب کے تعین کے لیے ایک کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایک کمیشن قائم کرے گی جو سزائے موت پانے والے قیدیوں کی سزاؤں پر کم سے کم وقت میں عمل درآمد کی سفارشات مرتب کرے گا۔
اس کے رد عمل میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ “عجلت میں دی جانے والی پھانسی کی سزائوں میں انصاف کے تقاضوں کے پورے کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔”
انہوں نےعراقی حکومت پر زور دیا کہ وہ سزائے موت کے معاملے پر اپنی پالیسی تبدیل کرے اور فوج داری مقدمات کا سامنا کرنے والےقیدیوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے عدل وانصاف کا قیام یقینی بنائے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے کہ عراق کی جیلوں میں 1200 قیدیوں کو پھانسی کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں اور انہیں کسی بھی وقت تختہ دار پر لٹکایا جا سکتا ہے۔ تاہم عراقی حکومت کی طرف سے ان اعداد وشمار کی تصدیق نہیں کی گئی البتہ تھوڑے تھوڑے عرصے بعد قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کے اعلانات سامنے آتے رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت اور عدلیہ شہریوں کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ان کا احترام یقینی بنائے کیونکہ عراق میں خواتین، بچے اور مرد مسلسل خطرات کی چھتری تلے زندہ رہے ہیں۔
عراق کے عدالتی نظام اور قیدیوں کو دی جانے والی سزاؤں پرعالمی تنقید پہلی بار سامنے نہیں آئی بلکہ اس سے قبل بھی بین الاقوامی ادارے، سفارت کار اور انسانی حقوق کی تنظیمیں عراق میں قیدیوں کو دی جانے والی سزاؤں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہیں۔