عراق (جیوڈیسک) عراق میں حکام نے سابق امریکی اڈے میں زیر تربیت 1700 فوجیوں کو قتل کرنے کے جرم میں دولتِ اسلامیہ سے وابستہ 36 افراد کو پھانسی دی ہے۔
فوجیوں کا قتلِ عام سنہ 2014 میں عراقی کے شہر تکریت کےنزدیک ایک کیمپ میں اُس وقت ہوا جب شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے عراق کے شمالی علاقے پر قبضہ کیا ہوا تھا۔
اس قتل عام میں زیادہ تر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کو مارا گیا جس کے بعد عراق میں غم و غصہ بڑھا اور عراق کی شیعہ ملیشیا نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی شروع کر دی۔
دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں نے سنہ 2014 میں ہونے والے اس قتلِ عام کی تصاویر اور ویڈیو بھی جاری کیں اور بعد میں ان افراد کی اجتماعی قبریں بھی ملیں ہیں۔
ایک سال قبل یہ اجتماعی قبریں اُس وقت ملیں جب عراقی افواج نے ان علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا۔
دولتِ اسلامیہ سے وابستہ ان 36 افراد کو اتوار کی صبح پھانسی دی گئی۔ ریاستی گورنر کے ترجمان بتایا کہ مارے جانے والے فوجیوں میں سے چار سو کا تعلق صوبے دیقار سے تھا۔
ترجمان نے کہا کہ شدت پسندوں کی پھانسی کے وقت ملک کے وزیر قانون حیدر آلزامالی بھی موجود تھے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ پھانسی دیے جانے والے تمام افراد کا تعلق عراق ہی سے تھا اور انھیں فروری میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
سنہ 2015 میں ان افراد کی اجتماعی قبریں اُس وقت ملیں جب عراقی افواج نے ان علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا
یاد رہے کہ عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے ایک بم دھماکے میں تین سو افراد کی ہلاکت کے بعد کہا تھا کہ وہ دہشت گردوں کو پھانسی دینے کے عمل میں تیزی لائیں گے۔
بعض ملزمان کا کہنا تھا کہ جب تکریت میں قتلِ عام ہوا تھا تو وہ وہاں موجود ہی نہیں تھے، جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ انھیں یا تو انصاف تک رسائی نہیں دی گئی یا ان پر تشدد کر کے اقبال جرم کروایا گیا ہے۔