عراق (اصل میڈیا ڈیسک) عراق کے نیم سرکاری ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق کی طرف سے ہفتے کے روز جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں تین ماہ سے جاری پرتشدد مظاہروں کے دوران اب تک کم سے کم 490 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر ہلاکتیں جنوبی شہروں اور بغداد میں ہوئیں۔
خیال رہے کہ عراق میں یکم اکتوبر سے عوامی سطح پر احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب حکومت کی بدانتظامی، کرپشن اور بے روزگاری کے خلاف لوگ سڑکوں پرنکل آئے۔ سنہ 2003ء میں امریکا کی عراق پریلغار اور صدام حسین کا تختہ الٹے جانے کے بعد ملک میں حکومت کے خلاف ہونے والے یہ سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔
عوامی سطح پرہونے والے پرتشدد احتجاج نے حکومت کو ہلاک کررکھ دیا ہے۔ وزیراعظم عادل عبدالمہدی کو استعفیٰ دینے پرمجبور کیا گیا اور اب مظاہرین کسی شفاف اور غیر جانب دار شخص کو ملک کا وزیراعظم بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہےکہ ملک میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز نے طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا۔ مظاہرین کو منتشرکرنے کے لیے خطرناک آنسوگیس کی شیلنگ، لاٹھی چارج، براہ راست فائرنگ اور صوتی بموں کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پرہلاکتیں ہوئی ہیں۔
عراق کے انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کے رکن فیصل عبداللہ نے بتایا کہ تین ماہ میں ہونے والے احتجاج کے دوران 490 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران 33 کارکنوں کو قاتلانہ حملوں میں ہلاک کیا گیا جب کہ 22 ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔
فیصل عبداللہ نے بتایا کہ 56 مظاہرین ابھی تک لا پتا ہیں۔ ان کے اغواء کے بعد نامعلوم مقام پرمنتقل کئے جانے کی خبریں آ رہی ہیں۔ اغواء کیے گئے 12 افراد کو رہا کیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ احتجاجی مظاہروں کے دوران لاپتا ہونے ولے افراد کو تلاش کررہی ہے۔